سہیل وڑائچ کا عمران کو جرائم تسلیم کر کے معافی مانگنے کا مشورہ

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے تحریک انصاف کے ڈبل سٹینڈرڈز اور دوغلی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا رونا رونے سے پہلے عمران خان کو چاہیئے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں ہونے والے جرائم کا اعتراف کریں اور بتائیں کہ انہوں نے کس کس کے کہنے پر جمہوریت کو کون کون سےچھرے مارے تھے۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا کے مصداق جمہوریت کی ٹرین پر سوار ہونے سے پہلے انصافیے اپنا حلیہ تو بہتر کریں۔ جیسے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ پڑھنا لازمی ہوتا ہے، ویسے جمہوری ہونے کے لیے کم از کم خان صاحب ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں کا اعتراف تو کریں۔

سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ کئی سالوں کے پس و پیش کے بعد اپوزیشن کانفرنس کا انعقاد ایک مثبت پیش رفت تھی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی جمہوری گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کے پہیے میں حرکت دراصل جمہوریت کے چلنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ محمود خان اچکزئی کا ریکارڈ کسی غیر جمہوری داغ سے پاک ہے۔ توقع تھی کہ کانفرنس کے شرکا اپنے ابتدایئے میں ہی ماضی کی اجتماعی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل میں انہیں نہ دہرانے کی ٹھوس یقین دہانی کروائیں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

ماضی قریب میں عمران خان کی حکومت نے اہل سیاست، اہل صحافت اور اہل دانش کے ساتھ جو غیر جمہوری سلوک روا رکھا اس کے گواہ اور ٹارگٹ تو خود محمود اچکزئی بھی تھے لیکن نئے میثاق جمہوریت کا وعدہ کرتے ہوئے اچکزئی اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی چیرہ دستیوں کا قصداً ذکر کرنا بھول گئے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت ماضی کے ان واقعات کو نہ غلطی سمجھتی ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کرتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت تو یہ بھی کہنے کو تیار نہیں کہ مستقبل میں وہ ان غلطیوں کا دوبارہ ارتکاب نہیں کرے گی جو اس نے اقتدار کے دوران کیں۔ لہٰذا جب تک عمران خان کی جانب سے ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی ٹھوس یقین دہانی نہیں آتی تب تک کسی بھی نئی جمہوری تحریک یا نئے چارٹر کی امید رکھنا غلط ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان کے لیے محمود اچکزئی انتہائی قابل احترام ہیں مگر کیا انہیں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف سے اعتراف نہیں کروانا چاہیے کہ جب وہ فوج اور جنرل باجوہ کے ساتھ ایک صفحے پر تھی تو پورے ملک کو بلڈوز کر کے آمرانہ نظام کی جانب بڑھا جا رہا تھا؟ بطور وزیراعظم عمران خان نے اپنے مخالفوں کو نہ صرف جیلوں میں بند کیا بلکہ اپنے جلسوں میں ان کے پنکھے اور اے سی بند کروانے کی بھونڈی دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے، کیا رانا ثناء اللہ کو منشیات فروشی کے جھوٹے کیس میں گرفتار کرنا انہیں سزائے موت دلوانے کی کوشش نہیں تھی؟

سینیئر صحافی سوال کرتے ہیں کہ کیا اپوزیشن کانفرنس کی حمایت کرنے والوں کو یاد ہے کہ وہ اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے تک کو اپنی شان کے خلاف سمجھا کرتے تھے۔ کیا اپوزیشن کانفرنس ان رویوں کی مذمت کے لئے کوئی ایک یا دو جملے بیان کرنا پسند کرے گی؟ یادش بخیر، جب خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہوا کرتی تھی تب لاہور کے جلسے میں ایک ٹی وی اینکر کو سر عام گالیاں دی گئیں اور پتھر مارے گئے۔ جب ایک صفحہ ہوتا تھا تو ہر جلسے کے بعد یوتھیوں کی جانب سے جیو ٹی وی کے دفتر پر آتے جاتے پتھرائو کرنا معمول کی بات تھی، کیا کوئی بتائے گا کہ جعلی دستاویزات بنا کر ہر صحافی کو لفافی ثابت کرنے کی مہم کس پارٹی نے اور کس کے کہنے پر چلائی تھی؟ ایک نئی جمہوری تحریک چلانے سے پہلے کیا یہ حساب صاف نہیں ہونا چاہیے۔ کیق صحافیوں اور اینکروں کی تنخواہیں کم کرنے اور اخبارات اور ٹی وی کے اشتہارات بند کرنے کی سازش میں تب کے فوجی افسروں کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان اور فواد چوہدری شریک نہیں تھے؟ کیا اس سازش پر انہیں معافی کا خواستگار نہیں ہونا چاہیے؟۔

سہیل وڑائچ کے مطابق آج صحافت اور میڈیا کا جو گلا گھونٹا گیا ہے اس کا آغاز تو عمران خان کے دور میں ہو گیا تھا۔ آج اُس سازش میں شریک لوگ نئی جمہوریت کے لیڈر بننا چاہتے ہیں، اگر واقعی وہ سچے دل سے بدل چکے ہیں تو پہلے ماضی کیے اپنے گناہوں کااقرار تو کریں، پہلے ایجنسیوں کی جانب سے عمران کے مخالفین کے تیار کردہ جھوٹے سکینڈلز سنانے کے جرم کا اعتراف تو کریں، پہلے پی ٹی آئی کے ناقد صحافیوں کو سکینڈلائز کرنے کے گناہ کی اعلانیہ معافی تو مانگیں، کیا یہ وہی لوگ نہیں جو حامد میر جیسے دلیر صحافی کو گولیاں مارے جانے پر اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ یہ اتنے سفاک لوگ تھے کہ حامد میر کو ماری جانے والی گولیوں کو پلاسٹک کی گولیاں قرار دیتے تھے۔ کیا یہ وہی لوگ نہیں کہ جو میڈیا کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر میر شکیل الرحمٰن کی انتقامی گرفتاری پر بغلیں بجاتے تھے اور سوشل میڈیا پر جھوٹی فیکٹری کے تیار کردہ الزامات دہرایا کرتے تھے؟ کیا ہم بھول جائیں کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کے خلاف ملک بھر میں توہین مذہب کے سینکڑوں مقدمات قائم کئے گئے۔ ایسا کرنے کے بعد آج کے جعلی جمہوری لیڈران تالیاں بجاتے تھے۔ کیا ان میں سے ایک نے بھی ان غیر انسانی اور غیر جمہوری رویوں کی کبھی ایک بار بھی مذمت کی؟۔ مان لیا کہ آپ سب کی کایا کلپ ہو گئی اور تب کےآمر اب جمہوری ہو گئے ہیں، لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو سب سے پہلے اپنے جرائم کا اعتراف کریں اور بتائیں کہ آپ نے کس کس کے کہنے پر جمہوریت کو کون کون سے چھرے مارے تھے۔

ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کو کن حالیہ تنازعات کا سامنا ہے؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے ماضی اور انکیلے جمہوری خیالات کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ وہ جمہوری کاز سے واقعی مخلص ہیں اور جائز طور پر سمجھتے ہیں کہ ایک مضبوط پاکستان کا مستقبل صرف جمہوریت میں پنہاں ہے۔ انہوں نے نئے میثاق جمہوریت کی بات کی ہے، یقیناً انہوں نے فرسٹ چارٹر آف ڈیمو کریسی کو غور سے دیکھا ہو گا۔ اس کا آغاز ہی اپنی غلطیوں کی عوامی معافی سے ہوتا ہے اور پھر آگے مستقبل کے عزم کا اعلان ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی یوٹیوبر مصر ہیں کہ وہ پہلے بھی درست تھے اور اب بھی درست ہیں، وہ جب قاتل تھے تو قتل جائز تھے اور اب جب وہ مقتول ہیں تو قتل حرام ہو گئے ہیں، یہ دو عملی اور تضاد بیانی نہیں چلے گی۔توقع یہی کی جاتی ہے اچکزئی عمران اور انکی جماعت سے جمہوریت بارے ایک واضح کمٹمنٹ لیں، وگرنہ تو اپوزیشن تحریک انصاف کی جاری اقتدار کی جنگ میں اسکی شریک کار بننے جا رہی ہے۔ اس جنگ میں جمہوری اور اعلیٰ مقاصد کا نام استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام جمہوری اور آمرانہ دونوں ادوار میں بہت فریب کھا چکے ہیں، عوام نے جمہوری لیڈرز کو کئی بار اپنے بھر پور اعتماد سے نوازا ہے، اس اعتماد میں یہ توقع بھی موجود تھی کہ جمہوری لیڈرز، جمہوری آدرشوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کریں گے اور پاکستان کو خوشحالی کی طرف لیکر جائیں گے۔ دوسری طرف آمرانہ ادوار میں بھی عوامی خواہشات کا جھانسہ دے کر ان کا خون کیا جاتا رہا ہے۔ گویا نہ جمہوری اور نہ ہی آمرانہ حکومتوں نے پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کی کوشش کی۔ لہذا اگر تو اپوزیشن واقعی عمران خان کے ساتھ مل کر عوام کو ایک نئی جمہوریت کا خواب دکھانا چاہتی ہے تو کم از کم ایسا قابل عمل حل پیش کرے جو دیرپا ہو اور ماضی کی طرح پر فریب نہ ہو۔

Back to top button