سہیل وڑائچ کا عمران کو شاہ محمود قریشی کارڈ آزمانے کا مشورہ

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کا سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ بظاہر مشکلات میں گھرے ہوئے عمران خان کا ٹرمپ کارڈ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے، اس سے پہلے کپتان نے عدالتی کارڈ، جرنیلی کارڈ، آئی ایم ایف کارڈ، اپوزیشن کارڈ، اور دھرنا کارڈ بھی کھیلے لیکن کوئی بھی نہ چل پایا، خان بیچارے کے سارے ہی کارڈز ناکام ہو چکے ہیں، ایسے میں مشورہ یہ ہے کہ ایک آخری کارڈ کے طور پر وہ شاہ محمود قریشی کارڈ بھی آزما کر دیکھ لیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کا المیہ یہ ہے کہ قربانیاں دینے کے باوجود بھی کپتان اور ان کے اندھے پیروکار ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، حالانکہ شاہ محمود قریشی کو موقع دیا جاتا تو وہ کوئی نہ کوئی سیاسی راستہ نکال لیتے۔ وہ اے آر ڈی میں بھی سرگرم رہے ہیں اور انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا بھی بہت تجربہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اڈیالہ میں ہر کوئی عمران سے ملتا ہے مگر بے چارے پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے نہ کسی ملاقاتی کا نام سننے میں آتا ہے نہ تحریک انصاف کے چیئرمین یا ان کے نامزد کردہ رہنمائوں اور وکیلوں نے کبھی ملتانی مخدوم کا نام بھی لیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بظاہر نہ شاہ محمود قریشی کا فوج سے کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی قیادت انہیں لفٹ کرواتی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ شاہ محمود ہوں یا اعجاز چودھری، محمود الرشید یا یاسمین راشد، یہ سبھی 9 مئی کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد سے مسلسل قید میں ہیں، مگر تحریک انصاف کے کسی بھی فیصلے میں کبھی ان سے کوئی مشورہ تک نہیں لیا جاتا، بظاہر شاہ محمود قریشی سے عمران خان کا کوئی اختلاف نہیں۔ نہ ہی شاہ محمود قریشی نے کبھی کپتان کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور نہ ہی اپنا کوئی گروپ بنایا ہے، نہ شاہ محمود نے فوج سے معافی مانگی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی رعایت ملی ہے، لیکن اسکے باوجود کپتان کو ان پر کوئی نہ کوئی شک ضرور ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں عمران خان کی جانب سے غیر ضروری طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
سہیل وڑائچ تسلیم کرتے ہیں کہ ملتان کے مخدوم قریشی خاندان کا ریکارڈ سیاسی وفا داری میں کوئی مثالی نہیں رہا۔ شاہ محمود قریشی نے بطور نوجوان آئی جے آئی یا آج کی نون لیگ سے سیاست کا آغاز کیا، وہ پنجاب کابینہ کے رکن رہے، ان کے والد مخدوم سجاد قریشی بھی اسی جماعت اور جنرل ضیا الحق کی نوازش سے گورنر پنجاب بنے۔ پھر ٹکٹ کے جھگڑے پر انہوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑا اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے، وہ اپنے سارے خاندان کو بھی پیپلز پارٹی میں لے گے۔ محترمہ بے نظیر نے انہیں وفاقی وزیر بنا دیا۔جنرل مشرف کے مارشل لا کے دوران وہ پیپلز پارٹی میں رہے مگر وہ جنرل مشرف سے بھی پس پردہ رابطے میں تھے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسرے ملتانی مخدوم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا مگر پھر انکے گیلانی سے اختلاف بڑھنے لگے اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا سے قربت ہو گئی۔ بالآخر انہوں نے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف بطور وزیر خارجہ پیپلزپارٹی کی کابینہ سے استعفی دے دیا حالانکہ اس رہائی کی ڈیل بھی جنرل پاشا نے ہی طے کی تھی۔
بعد ازاں شاہ محمود قریشی جنرل شجاع پاشا کی مدد سے فوج کے پراجیکٹ عمران خان میں شامل ہو گئے۔ عمران کی حکومت بنی تو وہ پھر وزیر خارجہ بنا دیئے گئے، امریکی سائفر کے معاملے میں وہ عمران خان کے ہم زبان اور امریکہ مخالف بیانیے میں پیش پیش تھے، بظاہر وہ آج تک عمران کے مکمل وفادار ہیں، وہ جیل میں بیٹھے ملتان سے الیکشن بھی جیت گئے لیکن اسکے باوجود انکے بارے میں یہ شک پارٹی کی صفوں سے لیکر قیادت تک کے ذہنوں میں موجود ہے کہ ان کو کسی بھی دن متبادل قیادت کے طور پر عمران کے خلاف سامنے لایا جا سکتا ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ شک اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے ماضی میں کئی بار اپنی سیاسی وفاداریاں بدلی ہیں۔ مخدوم خاندان ہمیشہ سے فوج کا فیورٹ رہا ہے اور شاہ محمود پر کسی بھی وقت کوئی مہربانی ہو سکتی ہے۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی ساری قیادت سے زیادہ سیاسی تجربے کے حامل ہیں۔ وہ فوج اور اہل سیاست سے ڈیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، پارٹی میں عمران خان کے بعد سب سے اہم عہدہ ان کے پاس ہے۔ شاہ محمود پنجاب اور سندھ کے سارے جاگیردار گھرانوں سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں ان کا سندھ اور پنجاب کے کئی انتخابی حلقوں میں سیاسی اثر و رسوخ بھی ہے۔ بظاہر یہ چیزیں شاہ محمود کی سیاسی اہمیت ظاہر کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں یہی چیزیں ان کے خلاف کام کرتی ہیں، پراپیگنڈا یہی کیا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی مضبوط ہوا تو اپنا دھڑا بنالے گا، خان کو دھوکہ دے دے گا یا پھر کوئی بڑا نقصان کر دے گا۔
سہیل وڑائچ کے بقول حالیہ تین برسوں میں شاہ محمود قریشی جس طرح ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انہوں نے سوائے مزاحمت کے کسی دوسرے آپشن پر غور تک نہیں کیا۔ بقول ان کے ملتانی حامیوں کے، شاہ ڈٹ کر کھڑا ہے! لیکن تاریخی طور پر ملتان کے قریشی مخدوم خاندان کا کردار انتہائی اہم اور کئی حوالے سے متنازع بھی رہا ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اسکے علاوہ آزادی کے سورما رائےاحمد خان کھرل کے خلاف لابی کرنے اور پھر اس کی شہادت میں بھی تب کے مخدوم شاہ محمود قریشی کا بڑا ہاتھ تھا۔ یاد رہے کہ حالیہ شاہ محمود قریشی کا نام بھی اپنے اسی بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے مسلمانوں کی بجائے گوروں کا ساتھ دیا تھا اور اپنا ضمیر بیچ دیا تھا۔
کیا یوکرین کا کامیڈین صدر زی لنسکی تیسری عالمی جنگ چاہتا ہے ؟
دوسری طرف سکھوں نے ملتان پر حملہ کیا تو وہاں کے قریشی مخدوم نے مسلم نواب آف ملتان مظفر خان کی پشت پناہی کی جس کے نتیجے میں بوڑھا نواب مظفر خان اپنے جوان بیٹوں اور بیٹی سمیت شہید ہو گیا۔ نواب نے اپنی وصیت میں اپنی قبر اس دروازہ پر بنانے کو کہا جہاں سے حضرت زکریا ملتانی کے دربار پر سلام کرنے والے کو نواب مظفر خان کی قبر پر پائوں رکھ کر گزرنا پڑتا ہے۔ گویا سکھوں کے خلاف مزاحمت میں مخدوم قریشیوں کا کردار تاریخی تھا۔ اس کے باوجود سہیل وڑائچ عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی تاش کے سارے پتے ناکام ہو جانے کے بعد وہ ایک آخری کارڈ کے طور پر شاہ محمود قریشی کارڈ بھی آزما کر دیکھ لیں۔