بلوچستان کے شہر سوراب میں ریاستی رٹ کی دھجیاں کس نے اڑائیں؟

بلوچستان کے شہر سوراب میں 60  سے زائد بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی کے قتل، بینک لوٹنے اور سرکاری رہائش گاہیں نذر آتش کرنے کے واقعات واضح کرتے ہیں کہ ریاستی رٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وارداتیں کرنے والے مسلح افراد کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے تھا جنہوں نے دو گھنٹے تک شہر کے اہم حصوں کا کنٹرول سنبھالے رکھا جن میں سرکاری دفاتر بھی شامل تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ 60 سے زائد مسلح افراد مختلف اطراف سے سوراب شہر میں شام کے وقت داخل ہوئے جس کے بعد انھوں نے اہم علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا جن میں ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا دفتر، پولیس تھانہ اور لیویز فورس تھانہ وغیرہ شامل تھے۔ مسلح افراد دو گھنٹے سے زائد شہر کے مختلف علاقوں میں رہے جنہوں نے جانے سے قبل ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے گھروں کو نذرآتش کرنے کے علاوہ بینک، پولیس تھانہ اور لیویز فورس کے تھانے کو بھی نذرآتش کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں پولیس تھانہ سوراب سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جبکہ ایک اور ویڈیو میں مسلح افراد ایک بینک سے نکلتے اور وہاں فائرنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بتایا کہ سوراب میں بینک اور افسران کی رہائشگاہ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ سوراب بازار میں بینک لوٹ لیا گیا جبکہ مختلف سرکاری افسران کے گھر جلائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران ایڈیشنک ڈپٹی کمشنر ریونیو ہدایت اللہ بلیدی بہادری سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ حملے کے وقت اے ڈی سی رہائش گاہ پر خواتین اور بچے موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ کارروائی انڈیا کی پراکسیز نے کی تاہم حکومت اور سکیورٹی فورسز ریاست دشمن عناصر کی ہر کوشش ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ایف سی پولیس اور لیویز فورس کی جانب سے علاقے میں سرچ اور کلیئرینس آپریشن جاری ہے۔

کالعدم عسکریت تنظیم بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری کے حوالے سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کارروائی کے دوران پولیس اور لیویز فورس کے تھانوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ چھیننے کے علاوہ بعض سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا لیکن سرکاری سطح پر تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بلوچستان میں ریاست کا کنٹرول کمزور تر ہوتا جا رہا ہے حالانکہ پورے صوبے میں فوجی دستے تعینات ہیں اور چوکیاں بھی موجود ہیں۔

یاد رہے کہ ہدایت بلیدی سے قبل گذشتہ سال اگست کے مہینے میں ایران سے متصل سرحدی ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ بھی مسلح افراد کی ناکہ بندی کے دوران مارے گئے تھے۔ ذاکر بلوچ کوئٹہ سے پنجگور جارہے تھے کہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ میں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ناکہ بندی کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس میں شدید زخمی ہونے کے باعث وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ان سے قبل جون 2013 میں مذہبی شدت پسندوں کے کوئٹہ شہر میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے قبضے کے دوران ڈپٹی کمشنر کوئٹہ منصور خان کاکڑ بھی مارے گئے تھے۔ وہ شدت پسندوں کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد آپریشن کی قیادت کے لیے ہسپتال پہنچے تھے۔

عمران خان کا پولی گرافک ٹیسٹ : پولیس چوتھی بار اڈیالہ جیل پہنچ گئی

سوراب شہر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں کوئٹہ کراچی ہائی کے قریب واقع ہے۔ سوراب شہر سمیت ضلع کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ ضلع سوراب انتظامی لحاظ سے بلوچستاں کے قلات ڈویژن کا حصہ ہے۔ قلات ڈویژن کے دیگر اضلاع خضدار، قلات، آواران، لسبیلہ، حب اور مستونگ کی طرح سوراب میں بھی ماضی میں سنگین بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن دیگر اضلاع کے مقابلے میں سوراب میں ان کی شرح کم رہی۔ تاہم قلات ڈویژن کے کسی اور علاقے کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے کسی بڑے شہر میں یہ اپنی نوعیت کی یہ ایک بڑی کارروائی ہے جس نے ریاست کی رٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اس سے قبل مسلح افراد نے اس ڈویژن کے ضلع خضدار کے دو شہروں زہری اور اورناچ میں اس نوعیت کی کارروائیاں کی تھیں جبکہ 2024 سے قلات ڈویژن سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں قومی شاہراؤں پر بھی مسلح افراد ناکہ بندی کرتے رہے ہیں جن کے دوران بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور زخمی بھی ہوئے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سکیورٹی انتظامات کو سخت کر دیا گیا۔

Back to top button