بحریہ ٹاؤن کیخلاف نیب کی کارروائی پر سپریم کورٹ کا اعتراض

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب کی جانب سے جلد بازی میں بحریہ ٹاؤن کی 6 ضبط شدہ ملکیتی جائیدادیں نیلام کرنے کی کوشش کا نوٹس لیتے ہوئے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ بحریہ مالکان کے خلاف نیب ریفرنسز زیر سماعت ہونے کے باوجود نیب نے جائیدادوں کی بولی لگانے کا فیصلہ کیسے کر لیا۔

9 اگست کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس نعیم اختر افغان نے نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کی چھ جائیدادوں کی نیلامی میں جلد بازی پر اعتراض لگاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ زین ملک کے خلاف ابھی 6 ریفرنسز زیرِ التوا ہیں جن کا فیصلہ احتساب عدالت نے کرنا ہے لہذا نیب ان کیسز کے فیصلے آنے سے پہلے کسی قسم کی نیلامی کا حقدار نہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس نعیم اختر افغان اس تین رکنی بینچ کا حصہ ہیں جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے نیب کے خلاف دائر کردہ اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کیس کی سماعت کے دوران نے نشاندہی کی کہ جب اگست 2020 میں ملک ریاض کے بیٹے زین ملک اور نیب کے درمیان ہونے والے پلی بارگین معاہدے کو ختم کرنے کیلئے درخواستیں دائر کی گئیں، تو قانونی طور پر تمام نیب ریفرنسز دوبارہ پہلی سٹیج پر پر چلے گئے تھے۔ اس صورتحال میں نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کی جائیدادیں ضبط کرنے اور نیلام کرنے پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ دراصل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 اگست 2025 کے مختصر فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کر رہا تھا، جس میں نیب کو بحریہ ٹاؤن کی چھ منجمد جائیدادوں کی نیلامی کی اجازت دی گئی تھی۔

نیب نے 8 اگست کو بحریہ کی ان چھ میں سے ایک جائیداد بولی لگا کر فروخت کر دی تھی، دو جائیدادوں کی مشروط بولی لگی جب کہ باقی 3 جائیدادیں مناسب آفر نہ ملنے کی وجہ سے نیلام نہیں کی جا سکی تھیں۔

کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی اپیلوں کی باقاعدہ سماعت 13 اگست سے کسی بھی دستیاب تین رکنی بینچ کے سامنے کی جائے گی۔

اپیل میں بحریہ ٹاؤن نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 4 اگست کا حکم قانون اور حقائق دونوں کے منافی ہے، اور فوجداری ضابطہ کار کی دفعہ 88 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو کسی تیسرے فریق کی جائیداد کو منجمد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بحریہ ٹاؤن نے اعتراض کیا کہ ہائی کورٹ اور احتساب عدالت یہ فرق کرنے میں ناکام رہیں کہ کون سے اثاثے زین ملک کے ذاتی ہیں اور کون سے کسی آزاد قانونی ادارے کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کے خلاف بڑھتی ہوئی ریاستی کارروائیوں کے بعد ملک ریاض نے وارننگ دی ہے کہ وہ آپریشنز جاری نہیں رکھ پائیں گے چونکہ انکے ادارے کے تمام بڑے افسران کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جا رہے ہیں۔

ملک ریاض کے خلاف نیب کے ایکشن سے سرمایہ کار پریشان

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ویسے تو کچھ عرصے کے دوران بحریہ ٹاؤن میں رہنے والوں کے لیے سوسائٹی کی جانب سے سروسز کی فراہمی کچھ حد تک متاثر تھی مگر اب سامنے آنے والی خبروں نے یہاں رہنے والوں کے ذہنوں میں بہت سے خدشات کو جنم دے دیا ہے۔

بی بی سی نے بحریہ ٹاؤن میں رہائش پذیر بہت سے شہریوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ حکومت اور ملک ریاض کے درمیان خراب ہوتے معاملات سے وہ براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے مطابق پہلے تو سوسائٹی کے اندر سکیورٹی کی گاڑیاں اور گارڈز اپنے فرائض انجام دیتے نظر آتے تھے، جس سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ پہلے کچرا روز صاف ہوتا تھا۔ کسی گھر میں اگر پانی کا نلکا یا واش روم کا فلش کام نہیں کرتا تھا تو ایک کال پر بحریہ کا پلمبر پہنچ جاتا تھا۔ یہاں نہ تو پانی کی فراہمی کا مسئلہ تھا اور نہ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا۔ لیکن اب صورت حال ایسی نہیں، سکیورٹی عملہ کم ہو گیا ہے، سٹریٹ لائٹس عموماً بند رہتی ہیں اور باقی سروسز بھی متاثر ہیں۔ اب سب کے ذہنوں میں ایک ہی خدشہ ہے کہ اگر بحریہ کے آپریشنز بند ہو گئے تو کیا ہو گا؟‘

ملک ریاض کے خلاف نیب ایکشن کا خمیازہ عوام بھگتنے لگے

یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک ریاض کے خلاف نیب کی کارروائی کے باوجود بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے حقوق محفوظ رہیں گے اور حالیہ کارروائی صرف اُن افراد کے خلاف کی جا رہی ہے جو براہ راست منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دوسری جانب ملک ریاض خود پر عائد تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’گذشتہ چند ماہ کے دوران حکومتی اداروں کی جانب سے پے در پے بے مثال دباؤ، درجنوں سٹاف ارکان کی گرفتاریوں، کمپنی کے تمام بینک اکاؤنٹس کی انجماد، عملے کی گاڑیوں کی ضبطی اور دیگر سخت اقدامات کے باعث بحریہ ٹاؤن کا ملک بھر میں آپریشن شدید طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور روزمرہ سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات انتقامی کاروائیوں پر مبنی ہیں جن کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوگا جنہوں نے بحریہ ٹاؤن میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!