مخصوص نشستوں کا کیس : نظرثانی کی درخواستیں کثرت رائے سے منظور، دو ججز کا اختلاف

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی انٹرا کورٹ اپیلیں باقاعدہ سماعت کےلیے کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سےجاری فیصلے کےمطابق، 13 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی اور بینچ کے 11 اراکین نے اکثریتی رائے سے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کافیصلہ کیا ہے۔تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اس فیصلے سےاختلاف کرتےہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قراردیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظرثانی کیسے فائل کرسکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیےکہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونےپر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلےپر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی،آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی،جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ،جسٹس صلاح الدین پنہور،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئےاور مؤقف اختیار کیاکہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ اس نکتے کا جواب فیصلےمیں دیا جاچکا ہے،آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیاہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نےاستفسار کیاکہ آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہےیا پھر اکثریتی فیصلے سے؟

وکیل حارث عظمت نے کہاکہ ہمارا اختلاف اکثریتی ججز سےہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نےبھی نشستیں دینےکی استدعا ٹیکنیکلی مسترد کی تھی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کا اسکوپ محدود ہے،اس پر دوبارہ دلائل نہیں دےسکتے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ ہمارےسامنے ریٹرننگ افسر (آر او) کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔

حارث عظمت نے کہاکہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی،پھر بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیاگیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسےجانے دیتے؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ تمام نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیاتھا۔

جسٹس عقیل عباسی نےکہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لےرہے ہیں، اسے چھوڑدیں، سپریم کورٹ نے آئین کےمطابق فیصلہ دیا،آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے،جو باتیں آپ بتارہے ہیں،ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں،کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟

انہوں نےکہا کہ آرٹیکل 181 کےتحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں، آپ نظرثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دےرہے ہیں،نظرثانی کے گراونڈز نہیں بتارہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیاکہ کیا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟وکیل حارث عظمت نےکہا مجھے کنفرم نہیں ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آپ عدالت کے سامنےکھڑے ہیں،یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس دیےکہ آپ نے یہ بھی بتانا ہےکہ کیا الیکشن کمیشن باؤنڈ نہیں ہےکہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرے؟

جسٹس عائشہ ملک نےکہاکہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظرثانی کیسے فائل کرسکتے ہیں؟

جسٹس عقیل عباسی نے کہاکہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونےپر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیاکیا آپ نے فیصلےپر عملدرآمد کیا ہے آپ ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ہم نے ایک پیرا اگراف کی حد تک عمل کیاہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیاکیا یہ آپ کی منشا یا مرضی کی بات ہےکہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟

جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کےوکیل سے استفسار کیاکہ آپ اس فیصلےسے کیسے متاثر ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہاگیا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے، آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا، اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کروانا ہے، آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ مجھے پشاور ہائیکورٹ میں فریق بنایاگیا تھا، اس لیے میں سپریم کورٹ آیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی، آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آگئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیاکہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلےپر عمل کیا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلےپر عمل کیا ہے تو ٹھیک،ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہےکہ ہمارے فیصلے پر عمل ہوگا؟

وکیل سکندر بشیر نےکہا کہ ہم فیصلےپر جزوی طور پر عمل کرچکے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کرسکتے،جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا،جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا۔

جسٹس عقیل عباسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتےہوئے کہاکہ پہلے آپ کےخلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، آپ کےخلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے،اگر آپ کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے؟

وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہاکہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہاکہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا،ایسی بات نہ کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ کیس کو چھوڑیں،یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جارہے ہیں؟کل کسی کو پھانسی کی سزادیں،تو کیا وہ کہےگا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑدیا؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آپ کی پٹیشن پڑھی،اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیاکہ آپ کےخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھالیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دےسکیں گے؟

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نظرثانی درخواستیں سماعت کےلیے با ضابطہ منظور کرتےہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

مخصوص نشستوں کا کیس : محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا ، جسٹس منصور

جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظرثانی درخواستوں کی سماعت کےلیے منظوری کے فیصلے سے اختلاف کرتےہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قراردیا۔

11 ججز نے اکثریت سے فریقین کو نوٹس جاری کیے۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتےہوئے ریمارکس دیےکہ توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائےگی۔

Back to top button