آئی ایم ایف سے معاہدہ: پاکستان کی خود مختاری کا سودا

تحریر:سید مجاہد علی

مشیر خزانہ شوکت ترین نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ حتمی معاہدے پر اتفاق کا اعلان کیا ہے تاہم اس کے تحت پاکستان کی مالی خود مختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ملک کو قرضوں کے چنگل سے نجات دلانے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے رہائی دلوانے کا وعدہ کرتے ہوئے برسر اقتدار آئی تھی۔ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ حکومت پاکستان کے معاشی ڈسپلن سے مطمئن نہیں ہے اور امدادی پیکیج کے عوض معاشی پالیسیوں پر مضبوط اور موثر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔

شوکت ترین نے وزیر توانائی حماد اظہر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تئیں یہ خوشخبری سنائی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ ہو گیا ہے اور اب جلد ہی پاکستان کو اس عالمی ادارے کی جانب سے طے شدہ مالی پیکیج میں سے مزید ایک ارب ڈالر موصول ہوجائیں گے۔ اس امداد سے فوری طور سے عالمی مالی و تجارتی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ بحال ہوگی اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہ سکیں گی تاہم یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ نئے معاہدہ کے تحت حکومت پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے جو پابندیاں قبول کی ہیں، ان کے ملکی پیداواری صلاحیت اور عام شہریوں کی معاشی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

خزانہ کے مشیر شوکت ترین اور وزیر توانائی حماد اظہر نے اس پریس کانفرنس میں بظاہر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آئی ایم ایف مشکل مالی حالات کے باوجود حکومت پاکستان کے مالی اقدامات اور معاشی نظم و ضبط سے بہت متاثر ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مزید پابندیاں عائد کرنے کا اقدام اور حکومت پاکستان کی شدید خواہش کے باوجود کوئی مالی رعایت نہ دینے کا فیصلہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ آئی ایم ایف اور اس سے منسلک دیگر عالمی اداروں کو پاکستان کی مالی پالیسیوں، آمدنی و اخراجات کے توازن اور حکومتی آمدنی میں اضافہ کی صلاحیت کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ اس کا بالواسطہ اظہار شوکت ترین نے یہ بتاتے ہوئے کیا ہے کہ ’ہم نے آئی ایم ایف کو باور کروانے کی کوشش کی کہ نئے ٹیکس لگانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عوام کے لئے اس افراط زر کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا‘ ۔ اس ناکام معاشی پالیسی اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مکمل ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے شوکت ترین نے یہ کہہ کر اس تاریک پہلو کو بھی روشن بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’ہماری دلیل کے بعد آئی ایم ایف نے کم آمدنی والے طبقات کو کسی حد تک سبسڈی دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے‘ ۔ درحقیقت شوکت ترین یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اسلام آباد کی حکومت واشنگٹن میں موجود آئی ایم ایف کے دفتر کی اجازت کے بغیر اپنے عوام کو کسی شعبہ میں کوئی مالی رعایت نہیں دے سکے گی۔

حکومت نے بہت لیت و لعل کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ جس ’نئے اور خوشگوار معاہدے‘ پر رضامندی ظاہر کی ہے وہ درحقیقت وہی معاہدہ ہے جس پر سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے اس سال کے شروع میں دستخط کیے تھے۔ مئی میں انہیں عہدے سے علیحدہ کرنے کے بعد چند روز کے لئے حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنایا گیا پھر شوکت ترین کو یہ عہدہ ملا۔ جو چھے ماہ کے اندر قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن منتخب نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ ماہ وفاقی وزیر سے مشیر خزانہ بنا دیے گئے۔ شوکت ترین نے اس سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے عوام کے لئے متعدد مالی مراعات کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے غریب عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دے سکتے۔ اب واشنگٹن سے آئی ایم ایف نے جس تازہ معاہدہ کا اعلان کیا ہے اور جس کی تصدیق اسلام آباد میں شوکت ترین نے کی ہے، وہ درحقیقت ان کی بجٹ تقریر سے متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ شوکت ترین ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کی بجائے اس کا دائرہ کار بڑھانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ یعنی موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے کی بجائے زیادہ شعبوں اور لوگوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے۔ تاہم وہ عملی طور سے اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اور اب آئی ایم ایف کے عمال کے سامنے چاروں شانے چت ہو چکے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ایک اعلامیہ میں بتایا ہے کہ ’پاکستان کے ساتھ 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے چھٹے جائزے کے لیے درکار پالیسیوں اور اصلاحات پر عملے کی سطح کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس سے پاکستان کو ایک ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ پیشگی اقدامات کی تکمیل بالخصوص مالی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے بعد مذکورہ معاہدے کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا‘ ۔ آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق اس سے پروگرام کی اب تک دی گئی رقم 3 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس سے باہمی اور کثیرالجہتی شراکت داروں سے فنڈنگ کھلنے میں مدد ملے گی۔ آئی ایم ایف نے ’مشکل ماحول کے باوجود‘ پروگرام پر عملدرآمد کے سلسلے میں ملک کی پیش رفت کو تسلیم کیا ہے۔ فنڈ نے انسداد منی لانڈرنگ کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے نظام سے نمٹنے میں پاکستان کی پیش رفت کا اعتراف کیا۔ تاہم اس کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

آئی ایم ایف کے اس اعلامیہ میں پاکستانی غریبوں کے لئے خوشی کا کوئی پیغام نہیں ہے بلکہ ان شرائط پر مزید فنڈنگ جاری رکھنے اور عالمی مالی شعبہ میں پاکستان کی شرکت میں سہولت دینے کا وعدہ کیا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور ملک کی خود مختار پارلیمنٹ اور اس کی نمائندہ حکومت کے مالی اختیارات میں کمی واقع ہوگی۔ پیٹرولیم مصنوعات کے علاوہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا امکان ہے تاہم وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے گیس کی قیمتوں میں فوری اضافہ سے انکار کیا ہے اور کہا کہ موجودہ قیمتیں برقرار رکھی جائیں گی۔ البتہ وہ بنیادی قیمت کی بات کرتے ہوئے ان محاصل کا ذکر نہیں کرتے جو نئے معاہدہ کے بعد توانائی کے پورے شعبہ پر نافذ کیے جائیں گے۔ ان میں خاص طور سے سیلز ٹیکس لیوی قابل ذکر ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جس معاہدے پر اتفاق کیا ہے، اس میں یہ شرائط شامل ہیں : جنرل سیلز ٹیکس میں اصلاحات، ہر ماہ پیٹرولیم کی قیمت میں 4 روپے اضافہ حتی کہ ہر لیٹر پیٹرول پر 30 روپے ٹیکس وصول کرنے کی حد کا ہدف حاصل کر لیا جائے۔ اسٹیٹ بنک کو مکمل خود مختاری دینے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح پاکستان کا مرکزی بنک حکومت کے براہ راست کنٹرول میں نہیں رہے گا اور خود مختاری سے شرح سود اور ایکسچینج ریٹ کا تعین کرسکے گا۔ پاکستانی حکومت اس نکتہ پر جولائی 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ چھے ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے معاہدے کے وقت اتفاق کرچکی تھی۔ تاہم بعد میں شوکت ترین کی سربراہی میں کچھ رعایات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اپریل سے پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی امداد بند تھی جس کی وجہ سے ملکی معیشت بدستور بے یقینی کا شکار ہے۔ اب اعلان کیا گیا ہے کہ تازہ معاہدہ پر عمل درآمد کی صورت میں ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد رقم پاکستان منتقل کی جائے گی۔ اگر پاکستان نظر ثانی شدہ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد میں کامیاب رہا تو باقی ماندہ رقم بھی مل سکے گی۔

مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے ہونے کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ ایشیائی ترقیاتی بنک اور عالمی بنک و دیگر عالمی اداروں سے سستے قرضوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔ شوکت ترین کی پریس کانفرنس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت دعوؤں کے باوجود قومی آمدنی میں اضافہ سے خود بھی مایوس ہو چکی ہے اور اب صرف عالمی اداروں سے قرض لے کر کام چلانے اور کسی بھی طرح انتخابات تک معیشت کو ’زندہ‘ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں اسٹیٹ بنک کو خود مختاری کا قانون منظور کروانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے اگر معمول کے اجلاس میں اپوزیشن کے ساتھ کسی مواصلت کے بغیر یہ بل منظور کروانے کی کوشش کی تو شدید سیاسی ہنگامہ آرائی کی امید ہے۔ اس لئے قیاس جا سکتا ہے کہ اس بل کو بھی اسی طرح بلڈوز کرنے کی کوشش کی جائے گی جیسے گزشتہ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 33 بل منظور کروائے گئے تھے۔ ان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا انتہائی متنازعہ بل بھی شامل تھا جس سے انتخابات مزید مشکوک ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

عمران خان کی حکومت ملک کو قرضوں کے چنگل سے نجات دلانے کا نعرہ لگاتے ہوئے برسر اقتدار آئی تھی۔ وزیر اعظم اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریروں میں تیس ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتاتے نہیں تھکتے تھے کہ سابقہ حکمرانوں نے یہ قرضے ملک پر لاد دیے اور وسائل اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے۔ تاہم موجودہ حکومت کے تین سال میں مزید 15 ہزار ارب روپے قرض کا اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت کسی مالی بے قاعدگی کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ وضاحت دیتی ہے کہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے اور کووڈ۔ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے حکومت کی مالی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس وبا کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے لگ بھگ امداد وصول ہوئی ہے۔ یہ اضافی امداد ان قرضوں کے علاوہ ہے جو عام معاہدوں کے تحت مختلف عالمی اداروں سے لئے گئے ہیں۔ اگر یہ کثیر امداد نہ ملتی تو پاکستان عملی طور سے دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔

حکومت کووڈ۔ 19 کے اثرات سے نمٹنے پر ہونے والے مصارف کا حوالہ دے کر بھی معاشی بوجھ کی وضاحت پیش کرتی ہے۔ تاہم اب آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس میں وبا پر اٹھنے والے اخراجات کا آڈٹ کروانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یعنی آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کے نمائندوں کی طرف سے کووڈ۔ 19 پر ہونے والے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس معاہدہ سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا جسے بدستور سابقہ حکومتوں کی غلطیوں سے تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کیا جنرل فیض نے واقعی عامر لیاقت کی سفارش کی؟

معاشی بدنظمی کی موجودہ صورت حال میں پاکستان کو ایک قومی حکمت عملی، ڈسپلن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ لیکن عمران خان اپوزیشن کو چور لٹیرے قرار دیتے ہوئے کسی بھی سیاسی مفاہمت کو ’این آر او‘ کہتے ہیں البتہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں پاکستان کی خود مختاری کا سودا کرتے ہوئے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوتے۔

Related Articles

Back to top button