کیا جسٹس اطہر من اللہ نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ تاریخ ساز منصف اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں چند دلیرانہ فیصلے دے کر نئی تاریخ رقم کردی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ جسٹس ثاقب نثار پر لگے الزامات کے کیس میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ سیٹھی کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی سی ڈی اے کو پاک بحریہ کا راول ڈیم کے کنارے بنا ہوا کشتی رانی کا کلب گرانے کاحکم دیا ہے۔ نیزاسلام آباد کا منال ریستوران اور مارگلہ گرینز گالف کلب کو ضبط کرنے کی ہدایت بھی کی ہے کیوں کہ یہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔

اس طرح جج صاحب نے فوج کی جانب سے 8 ہزار ایکڑ زمین پر دعوے کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس سے بھی اہم بات فاضل جج صاحب کی جانب سے یہ قرار دینا تھا کہ پاک بحریہ کے پاس ایسے تعمیراتی منصوبے سرانجام دینے کا اختیار نہیں، اور نہ ہی وہ اپنا نام ان کے لیے مستعار کرسکتی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے لیے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی لکھتے ہیں کہ فطری طور پر اس فیصلے پر لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں میں طمانیت کی لہر دوڑ گئی، اس فیصلے نے ایسے طاقت ور افراد کو برہم کردیا جو ریاسی اداروں پر کنٹرول جمائے ہوئے ہیں۔ ان کے ملک بھر میں غیر قانونی جائیداد کے ساتھ ذاتی مفادات وابستہ ہیں۔ شروعات کے طور پر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر 79 ”تجاوزات” کی ایک فہرست ظاہر کی جس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ کئی سرکاری ادارے، سی ڈی اے، میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ وغیرہ علاقے کو کنٹرول کرنے اور اس کا انتظام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس نے فیصلے کرنے اور اجازت دینے کے حق کو مشکل بنا رکھا ہے۔ سیٹھی کے بقول جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے نے ان سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ اس سے پہلے عدالتیں امیر اور طاقتور دھڑوں بارے معاملات کو کیسے نمٹاتی رہی ہیں، جب کہ غریب اور کم زور افراد کا عدالت میں حشر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔

نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دو مقدمات نے عوامی غم و غصہ کو ہوا دی۔ ان میں عدالتیں طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو خوش کرنے کے لیے پیچھے ہٹ گئیں۔ پہلا بنی گالہ میں عمران خان کی اربوں روپے کی وسیع و عریض جائیداد کا ہے جو کئی سال قبل غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ عمران خان کو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دینے والے متنازع چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر سی ڈی اے نے اسے بڑی ڈھٹائی سے ”ریگولرائز“ کر دیا تھا حالانکہ یہ غیر قانونی تعمیرات کا کیس تھا۔

اس عدالتی حکم کی تعمیل میں سی ڈی اے کے اس بدقسمت چیئرمین کی تنزلی کردی دی گئی تھی جس نے جائیداد کے حوالے سے عمران خان کو سوالنامہ بھیجا تھا، اور جس صحافی نے وزیر اعظم کی بددیانتی کو بے نقاب کرنے والی ایک خبر کا حوالہ دیا، اسے پیمرا نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا ۔ اسی طرح کا دوسرا کیس کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد میں گرینڈ حیات نامی بلند و بالا لگژری ٹاور کی تعمیر ہے، جس کے مالکان کا شمار اہم اور طاقت ور افراد میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ اس ٹاور میں کئی ججوں کے پارلیمنٹ بھی تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی جانب سے حال ہی میں کراچی میں نسلہ ٹاور اور ایک مسجد سمیت غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی مسماری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس ثاقب نثار کی عدالت نے اس گرینڈ حیات ٹاور کو غیر قانونی تعمیرات کے زمرے میں آنے کے باوجود ریگولرائز کر دیا تھا۔ بقول سیٹھی، یہ مہان خرابی کی ایک سرسری سی جھلک ہے۔

سینئر صحافی کہتے ہیں کہ سرکاری وسائل کی لوٹ مار آغاز 1947 میں تقسیم کے وقت ہی ہوگیا تھا جب ہندوؤں اور سکھوں کی دسیوں اربوں مالیت کی شہری اور دیہی جائیدادوں پر ریاست کے نئے آقاوں نے قبضہ کر لیا ۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے اتحادیوں اور اثاثوں کو نوازا گیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کی پارلیمان نے پاکستانیوں کی زمینوں اور جائیدادوں کے آسان اور سستے حصول کے لیے قوانین بنانا شروع کردیے۔ اس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ ان زمینوں پر عوامی پارک، تعلیمی ادارے یاسکیورٹی اور دفاعی تنصیبات قائم کی جائیں گی۔ اس کے بعد یہ اراضی من پسند اداروں اور افراد کو کوڑیوں کے بھاؤ لیز پر دی گئی۔

ان لوگوں نے خاموشی سے لیز کردہ زمینوں کو نجی شعبے کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں، کلبوں، شادی ہالوں، گولف کورسز وغیرہ کے انتہائی نفع بخش تجارتی منصوبوں میں تبدیل کر دیا اور اسیطرح پاکستان میں فوجی معیشت انتہائی معروف کاروباری ادارہ بن کر سامنے آئی۔ اس کے پاس ایئر لائنز، شپنگ، ہوٹل، بینک، انشورنس، خوراک، کھاد، سیمنٹ، ہاؤسنگ وغیرہ کا کاروبار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس من اللہ کا حالیہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے قبل انہوں نے سول بیوروکریسی کو خود کو اور ججوں کو قیمتی رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کو معمولی قیمتوں پر الاٹ کرنے کے عمل کو روک دیا تھا تاکہ زمینوں پر قبضے کے دعووں اور قانون کو من مرضی سے موڑنے کے عمل کو روکا جاسکے۔

کیا ملک میں صدارتی نظام لانے کی سازش ہو رہی ہے

نجم سیٹھی سوال کرتے ہیں کہ کون سی دوسری عدالت یا جج ان کی قابلِ تعریف مثال کی تقلید کرتے ہوئے پاکستانی تاریخ کے اس سنگ میل کو عبور کرے گا؟ انکے بقول سپریم کورٹ کو اب مفاد عامہ کے ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔ معروف وکیل احسن بھون کی سربراہی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نواز شریف اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کے صادق اور امین نہ ہونے پر عوامی عہدہ رکھنے سے تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا ہے۔ یہ درخواست سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اعلیٰ سطح کی عدالتی ناانصافی، بدانتظامی اور سیاسی تعصب کے انکشافات کے بعد دی گئی ہے ۔

ان ناروا سرگرمیوں کا مقصد نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنا تھا۔ عدالتی نظرثانی کے لیے زمین کو مزید ہموار اس وقت ہوگئی جب تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری احمد جواد نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے اور عمران کو اس پر فائز کرنے کے لیے عدالتی اور فوجی جوڑ توڑ کے الزامات کو منظر عام پر لے آئے۔

ان کا یہ بھی موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے نواز شریف کی غیر منصفانہ برطرفی کو ”توازن” دینے کے لیے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا۔ یہ بیان متعدد مقدمات میں نواز شریف کے ٹرائل اور اپیلوں پر اثرانداز ہوگا اور عدلیہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کر سکے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو جب سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے الزامات کا فیصلہ کرنا ہوگا تو ان پر یہ بھی دباؤ ہو گا کہ وہ احمد جواد کی گواہی کو بھی اپنی بحث میں شامل کریں۔
سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس اطہر من اللہ واقعی مرد میدان ہیں اور کیا وہ نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں؟

Related Articles

Back to top button