کیا قومی حکومت کی باتیں سچ ہیں یا صرف شوشہ؟

ملک کو دگرگوں معاشی و سیاسی صورتحال سے نکالنے کے لیے قومی حکومت کی تشکیل کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے تاہم اکثر سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کے بغیر نہ تو ان ہاؤس تبدیلی آسکتی ہے اور نہ عمران خان کو گھر بھجوانے کے بعد ن لیگ کے بغیر کوئی نیا سیاسی سیٹ اپ تشکیل پاسکتا ہے لہذا قومی حکومت کی باتیں ایک شوشے کے سوا کچھ نہیں۔

واقفان حال دعویٰ کر رہے ہیں کہ مائنس عمران خان ایک قومی حکومت کے قیام کے فارمولے پر کام شروع ہے اور جنوبی پنجاب کی ایک اہم ترین شخصیت اس حوالے سے متحرک ہوگئی ہے تاکہ تحریک انصاف بھی مائنس عمران خان اس حکومت کا حصہ بن سکے۔ اس اہم ترین شخصیت کو مقتدر حلقوں کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ سینئیر صحافی عاصم نصیر کا کہنا یے کہ قومی حکومت کی تشکیل کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق سے رابطے ہوچکے ہیں جبکہ نواز کیگ، پیپلزپارٹی، اے این پی، باپ، جماعت اسلامی سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان رابطوں میں پیپلز پارٹی نے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے جبکہ نواز لیگ کے ساتھ ابھی مذاکرات جاری ہیں، ذرائع کے مطابق قومی حکومت کے اس فارمولے کے تحت وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔

کہا جاتا رہانیے کہ تجویز حکومتی اتحادی جماعتیں بھی عدم اعتماد کی تحریک میں پیش پیش ہوں گی جبکہ فارمولے کے تحت تحریک انصاف کے اپنے ارکان عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ایوان سے غیر حاضر رہیں گے۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکمران جماعت سے ہی وزیراعظم کا امیدوار سامنے لایا جائے گا۔ فارمولے کے مطابق قومی حکومت میں تمام جماعتوں کو شئیر دیا جائے گا۔

کپتان اسمبلی توڑیں یا کوئی ایڈونچر کرینگے

تاہم دوسری طرف سیاسی مبصرین قومی حکومت کے فارمولے کو زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں نہیں ان کا کہنا ہے کہ کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی معمولی عددی اکثریت اور کئی جماعتوں میں تقسیم مینڈیٹ کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ نہ تو مسلم لیگ نون کے بغیر ان ہاؤس تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نون ایسے کسی فارمولے پر عمل درآمد کے لئے اپنی خدمات پیش کرے گی جس کے نتیجے میں انہیں اپنا جائز حصہ یعنی اقتدار نہ ملے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت انتہائی غیر مقبول ہیں تاہم اب بھی تحریک انصاف کے منتخب اراکین کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمات حاصل کیے بغیر تحریک انصاف کے تمام اراکین کو توڑا جائے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے عمل میں تحریک انصاف چپ چاپ تماشہ دیکھتی رہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ سے اچھی ڈیل حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم پارلیمنٹ میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے اسے پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہے بصورت دیگر قومی حکومت بنانا تو دور کی بات عمران کو گھر بھجوانا بھی ناممکن ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کہ ہر چھ مہینے بعد قومی حکومت جیسے شوشے چھوڑ کر کر اصل سیاسی صورتحال کو کو دھندلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت صاف نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ نون ملک کی مقبول ترین جماعت ہے اور اگر یہ جماعت آئندہ عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر کے پنجاب سمیت مرکز میں بھی حکومت بنا سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ نازک معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ نون ن تحریک انصاف حکومت کے پانچ سال پورے کروانے کے لیے ذہن بنا بیٹھی ہے لہذا ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ کہ مسلم لیگ ن کسی قومی حکومت کی تشکیل کے لئے اپنا کاندھا پیش کرے۔

Related Articles

Back to top button