طالبان حکومت کا افغانستان میں ٹی ٹی پی والوں کو ڈنڈا دینے کا فیصلہ

پاکستان اور افغانستان کے مابین کچھ معاملات پر اختلافات کے بعد پہلے کابل اور پھر چین میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کے بعد جہاں ایک طرف بھارت کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔ وہیں دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت نے پہلی پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے افغان شرپسندوں اور دہشتگردوں کیخلاف کریک ڈاؤن کاآغاز کر دیا ہے۔ مبصرین اس اہم پیشرفت کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں بہتری اور مضبوطی کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں۔

اس پیشرف سے واقف ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران زیادہ تر توجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر مرکوز رہی لیکن اسی عرصے کے دوران اسلام آباد اور کابل نے خاموشی سے کام کیا تاکہ کشیدگی کے شکار تعلقات کو بحال کیا جا سکے۔پہلی بار پاکستان نے کابل کے نقطہ نظر میں تبدیلی اس وقت محسوس کی جب مارچ کے تیسرے ہفتے میں خصوصی ایلچی برائے افغانستان محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور اس وفد کو کابل نے سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔بند کمرے میں ہونے والی بات چیت سے واقف ذرائع نے بتایا  کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان نے محسوس کیا کہ طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔اس وقت اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی تھیں لیکن اب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان نے اپنے ایسے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے جنہوں نے یا تو ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی یا گروپ کا حصہ بننے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ افغان حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے اس کریک ڈاؤن کے دوران بہت سے ایسے افغانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا جو افغان شہریوں کو ٹی ٹی پی کے لیے بھرتی کر رہے تھے ذرائع نے بتایا پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے بعد آخر کار افغان طالبان حرکت میں آگئے اور اپنے شہریوں کیخلاف کارروائی کی جس کی وجہ سے نہ صرف کے پی میں خودکش حملوں میں نمایاں کمی آئی بلکہ اسحاق ڈار کے 19 اپریل کو دورہ کابل کی راہ بھی ہموار ہوئی۔تین سالوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا افغان دارالحکومت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں کابل کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی جس کے بعد پاکستان نے افغان درآمد کنندگان کے لیے بینک ضمانتوں کی شرط کو ختم کیا اور افغان تجارت پر سے کچھ پابندیاں ہٹا دیں۔

طالبان حکومت نے پاکستان کا اعتماد اس وقت بھی جیتا جب اس نے کچھ افغان شہریوں کو پکڑ لیا جنہوں نے پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان میں دراندازی کی کوشش کرنے والے 70 سے زیادہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کی تھی۔

بعد ازاں پاک بھارت جنگ کے دوران افغانستان سے کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب یہ خبریں وائرل ہوئیں کہ بعض افغان حکومتی ذمہ داران مودی سرکار سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاہم اب افغان وزیر خارجہ نے اسی خبروں پراپیگنڈہ قرار دے دیا ہے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے موقف اپنایا کہ جن لوگوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے پاک افغان تعلقات خراب کرنے کی سازش رچائی ہے ان میں اکثریت کا تعلق سابق افغان حکومت کے اہلکاروں سے ہے تاکہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کر کے اس کشمکش سے فائدہ اٹھاسکیں۔ سابق افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سربراہ امراللہ صالح اس کے پیچھے تھے اور انہوں نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی سرپرستی کی۔ جبکہ کچھ افغان حکومت سے وابستہ افراد بھی اس کی زد میں آئے۔ تاہم افغان حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بتایا کہ بھارتی وزیر خارجہ سے رابطہ انہوں نے کیا اور یہ ایک معمول کا رابطہ تھا۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ یہ بات واضح ہے کہ افغانوں کیلئے پاکستان دوسرا گھر ہے اور پاکستان کی سالمیت افغانوں کیلئے عزیز ہے۔ ذرائع کے مطابق چین میں مذاکرات کے دوران پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت کی اور پاکستان نے موقف اپنایا کہ بھارت، افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ذریعہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف ترکیہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد تہران روانہ

اس موقع پر چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو بتایا کہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری چین کی ریڈ لائن ہے اور پاکستان کے حوالے سے چینی عوام اور حکومت کی جو پالیسی ہے، وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ پاکستان کو خطرے میں ڈالنے والی کوئی بھی کارروائی براہ راست چین کے خلاف کارروائی تصور کی جاتی ہے۔ اس موقع پر چین اور پاکستان نے افغانستان کو گوادر پورٹ کے ذریعے دنیا تک رسائی دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ چین نے افغان وزیر خارجہ کو بتایا کہ افغانستان تجارت کیلئے جس طرح چاہے، گوادر بندرگاہ استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم اس کی ایک ہی شرط ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کے راستے ہر قسم کی دہشت گردی ختم کرنا ہو گی۔ افغانستان کو ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔ کیونکہ سی پیک کو کامیاب بنانا چین کا سب سے اہم منصوبہ ہے۔

Back to top button