سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کےخلاف توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے نذر عباس کےخلاف جاری توہین عدالت کا نوٹس واپس لےلیا۔

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے فیصلے میں کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیاجاتا ہے، ایڈیشنل رجسٹرار نے دانستہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔

فیصلے میں کہاگیا ہےکہ کمیٹیز کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کےلیے فائل چیف جسٹس کو ارسال کر دی گئی ہے۔

فیصلے میں مزید کہاگیا ہےکہ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بینچ سے واپس لے،انتظامی سطح پر عدالتی احکامات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کےخلاف ہوتی ہے،ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جارہی۔

یاد رہےکہ ہفتے کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نےججز کمیٹی کو خط لکھ کر انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کو ارسال کردہ خط میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کی انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ میں شمولیت پر اعتراض کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں موقف اپنایا کہ 23 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا،اجلاس کےبعد چیف جسٹس نے اپنے چیمبر میں کمیٹی کا غیر رسمی اجلاس بلایا،اجلاس میں تجویز دی کہ سنیارٹی کے اعتبار سےاپیل پر 5 رکنی بینچ بنایا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نےخط میں مزید لکھا تھاکہ انہوں نے تجویز دی کہ ان ججز کو شامل نہ کیا جائے جو کمیٹی کے رکن بھی ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ 4 رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے۔

جسٹس منصور شاہ کے خط کے مطابق رات 9 بج کر 33 منٹ پر میرے سیکریٹری کا واٹس ایپ میسج آیا،سیکریٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا،میں نے سیکریٹری کو بتایاکہ مجھے اس پر اعتراض ہے،صبح جواب دوں گا۔

سینئر جج نے خط میں مزید لکھا ہےکہ رات 10 بج کر 28 منٹ پر سیکریٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے،انہوں نے لکھاکہ میرا بینچ پر دو ممبران کی حد تک اعتراض ہے۔

واضح رہےکہ 21 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کےمعاملے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو خط لکھا تھا۔

خط میں لکھا تھاکہ کمیٹی، جوڈیشل آرڈر کےخلاف نہیں جاسکتی تھی اور کیس 20 جنوری کو مقرر کرنے کی پابند تھی، ہمیں کمیٹی کے فیصلے کا معلوم نہیں، پورے ہفتے کی کاز لسٹ بھی تبدیل کردی گئی اور آرڈر جاری کیے بغیر کیسز کو بینچ کے سامنےسے ہٹادیا گیا۔

خط میں کہاگیا تھاکہ عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنےپر آفس کی ناکامی اور ادارے کی سالمیت مجروح ہوئی، عدالت کے طےشدہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی،بینچ کےنوٹس لینے کے دائرہ اختیار کو نہیں چھینا جا سکتا، بینچز کی آزادی کے بارے میں بھی سنگین خدشات پیدا ہوتےہیں۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدےسے ہٹادیا، اس حوالے سے جاری کیےگئے اعلامیہ میں کہاگیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے،رجسٹرار سپریم کورٹ کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مزید کہاگیاکہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ کے سامنے سماعت کےلیے مقرر کیا،نتیجتاً سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔

Back to top button