عمران اور شہباز کا وجود ایک دوسرے کی بقا کے لیے ضروری کیوں ہے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں عمران خان اور شہباز حکومت کا وہی تعلق ہے جو کبھی سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا ہوا کرتا تھا، ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کی بقا کے لیے لازم و ملزوم تھا۔ اسی لیے جس روز سلطان راہی قتل ہوا، مصطفی قریشی بھی جسمانی طور پر زندہ ہونے کے باوجود مر گیا تھا۔ لہٰذا آج اگر عمران خان کی سیاسی قوت اور مقبولیت ختم ہو جاتی ہے تو شہباز حکومت کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ شہباز کی حکومت بھی تب تک ہی مضبوط ہے جب تک عمران اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت پر قائم و دائم ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ معروف برطانوی سائنسدان سر آئزک نیوٹن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قدرت کا یہ پوشیدہ راز پا لیا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اب اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے جس کے مطابق ہر عمل کا اس کے برابر اور مخالف ردّعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن کا یہ سنہری قانون سیاست پر اپلائی کر کے دیکھیں تو یہاں بھی ہر عمل کا اس کے ہی برابر سیاسی ردّعمل ہوتا ہے۔ لالی وڈ کی پنجابی دنیا میں جس دن سلطان راہی تاریک راہوں میں مارا گیا، اسی روز مصطفیٰ قریشی زندہ ہوتے ہوئے بھی مرگئے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایکشن ہی نہ رہا تو ری ایکشن کیسا؟ جب ہیرو ہی دنیا سے اٹھ گیا تو ولن اکیلا کیا کرے گا؟۔

بقول سہیل وڑائچ، اس مثال کو مزید سمجھنے کے لئے ایک تاریخی واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ جس دن نون لیگ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قیوم کے ذریعے بینظیر بھٹو کو نااہل کروایا تھا اور سزا سنوائی تھی، اسی دن تقدیر نے نواز شریف کے اقتدار پر بھی سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بات نواز شریف کو اس وقت ان کے منہ پر بھی بتا دی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ آپکی سیاست کو بھی زوال پذیر کر دے گا کیونکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ ہم مخالف کو کمزور کر لیں گے تو ہم مزید طاقتور ہو جائیں گے لیکن عملی طور پر کسی بھی سیاستدان کی مضبوطی اور اس کی اہمیت کی اصل وجہ وہ خود نہیں بلکہ اس کا سیاسی مخالف ہوتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے سیاستدان اپنے مخالف کو نہ صرف مضبوط رکھتے ہیں بلکہ اسکا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ طویل کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شہباز حکومت کے طوطے کی جان عمران خان میں بند ہے۔ شہباز حکومت عمران اور ان کی سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے اور عمران اور انکی جماعت شہباز حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ دونوں بھولے نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہیں سمجھتے۔ اگر شہباز شریف کی کمزور حکومت گری تو عمران خان کے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور اگر نون نے عمران کو کونے میں لگا دیا تو اس کی اپنی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ یہ دونوں بھولے بادشاہ سمجھ نہیں رہے کہ انکی بقا ایک دوسرے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اب اگر تو انہوں نے لڑ مر کر ایک دوسرے کو ختم کرنا ہے تو پھر رسم و سہراب اور سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی طرح ایک کی موت دوسرے کو خودبخود اس کے انجام تک پہنچا دے گی۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ قومی اتحاد نے فوج کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالا۔ جب بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کے وزیروں کی چھٹی کروا دی تھی کیونکہ ضیاء کا اصل مقصد قومی اتحاد کے کندھے کو استعمال کر کے بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کرنا تھا۔ اس نے بھٹو کو ختم کر لیا تو قومی اتحاد کی موت کا خود ہی انتظام ہو گیا۔ اسی لیے بعض اوقات رقیب کی حفاظت بھی عاشق کی ذمہ داری بن جاتی ہے، دشمن کی جان اور عزت کا تحفظ نہ کیا جائے تو خود آپ کی جان اور عزت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول اگر نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت درست ہے  تو آج کی سیاست کے دو بڑے فریق، نونی اور انصافی، واقعی بھولے ہیں اور یہ نہیں سمجھ رہے کہ انکی جان اور سیاست ایک دوسرے کے بقا میں مضمر یے۔ ایک کے خاتمے کا مطلب دوسرے کا خاتمہ ہو گا جس کا فائدہ اسی تیسرے فریق کو ہوگا جو پچھلے 75 سالوں سے اس ملک کا اصل حکمران ہے۔ اگر یہ بھولے سیاستدان تھوڑے سیانے ہو جائیں اور مذاکرات ناکام کرنے کی بجائے انہیں کامیابی کی طرف لے جائیں تو وہ ایک دوسرے کی سیاسی زندگی کے ضامن بن سکتے ہیں، لیکن اگر وہ ایک دوسرے سے اسی طرح دست و گریباں رہے اور اس جنگ میں ایک فریق ہار گیا تو جیت دوسرے فریق کی نہیں بلکہ تیسرے کی ہو گی۔

پیپلز پارٹی مخالف میڈیا کا صدر زرداری سے گلہ جائز کیوں نہیں؟

مرحوم و مغفور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں کوئی رکاوٹ یا خرابی آجائے تو اسکا علاج مزید جمہوریت ہے۔ اگر اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے تو مذاکرات ناکام ہونے کا علاج مزید مذاکرات میں ہے، اگر جنگوں کا اختتام مذاکرات سے ہو سکتا ہے تو سیاسی اختلاف کا کیوں نہیں؟ اس وقت مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ نون اور انصاف دونوں کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش ہے۔ دونوں فریقوں کی سیاسی زندگی کا انحصار مذاکرات کی کامیابی میں ہے۔ قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی آپسی لڑائی کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ سب جانتے ییں کہ تیسرے فریق نے مارشل لا لگا دیا تھا۔ ہم ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ شدید سیاسی محاذ آرائی کے باوجود یہاں مارشل لا نہیں لگا، وگرنہ اہل سیاست جس طرح لڑ رہے ہیں اور عدلیہ اور فوج کی لڑائی کروانا چاہتے ہیں، یہ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، دونوں فریقوں کی سیاست اور زندگیاں بچانے کا واحد طریقہ مذاکرات کی کامیابی ہے۔ ایک کمزور معاہدہ بھی ہوجائے تو یہ دونوں کے بچائو کا راستہ نکل آئے گا۔ صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کے لئے کمزور معاہدہ تصور کیا گیا لیکن اسی معاہدے نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ تحریک انصاف کو کمزور معاہدہ یا ہلکا پھلکا ریلیف بھی ملے تو لے لینا چاہئے کیونکہ آج کی مصلحت کل کی فتح بن سکتی ہے اور آج کی پیشکش کو رد کرنا مستقبل کی خود کشی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے!!

Back to top button