ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی !

تحریر : عرفان صدیقی
بشکریہ : روزنامہ جنگ
میں یہ کالم کم وبیش ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول سے لکھ رہا ہوں۔ کل مجھے ایک پاکستانی کی صد سالہ برسی کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ تُرک قوم اُسے اپنا ہیرو مانتی ، اپنا فرزند کہتی ہے۔ صدر طیّب اردوان جب بھی پاکستان آئے، کسی نہ کسی تقریب میں اُس کا ذکر ضرور کیا۔ ذکر بھی ایسا کہ ایک ایک لفظ گہری محبت کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ کیا قوم ہے کہ ایک سو سال بعد بھی مادرِمشفق کی طرح اُسے سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ اور ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ کے ایک جری کردار کے نام تک سے واقف نہیں۔مدتوں پہلے تنگ دستی کا ڈسا ایک خاندان، بارہ مولا سے ہجرت کرکے پشاور منتقل ہوگیا، جو اُن دِنوں انگریز فوج کی ایک بڑی چھائونی تھا۔ ہجرت کے بعد پروان چڑھنے والی دوسری نسل کے ایک ہنرمند جوان نے اپنی ہی نہیں پورے خاندان کی قسمت بدل ڈالی۔ یہاں تک کہ اُس کا شمار امیرترین لوگوں میں ہونے لگا۔ اُسے پشاور کا ’’رئیس التّجار‘‘ یعنی تاجروں کا بادشاہ کہا جانے لگا۔ حاجی غلام صمدانی نے یکے بعد دیگرے چھ شادیاں کیں۔ کثیرالمال بھی ٹھہرے اور کثیرالعیال بھی۔ چھ بیویوں سے تیرہ بیٹے پیدا ہوئے اور پانچ بیٹیاں۔ ایک بیٹے کی پیدائش سے پہلے عجب خواب دیکھا۔ ایک نہایت ہی چمکدار ستارہ، اپنی شعاعیں بکھیرتا طَشتِ فلک سے ٹوٹا اور غلام صمدانی کی دستار میں آٹِکا۔ بزرگوں نے تعبیر بتائی کہ تمہارے ہاں ایک خوش خصال بیٹا پیدا ہوگا جو تمہاری عزت کو چار چاند لگا دے گا۔
دسمبر1886ءمیں پیدا ہونیوالے اِس بچے کا نام عبدالرحمن رکھاگیا۔ قرآن کے چودہ سپارے حفظ کرنے کے بعد وہ مقامی اسکول میں داخل کرا دیاگیا۔ ساتویں جماعت پاس کی تھی کہ والد نے مزید اعلیٰ تعلیم کیلئے 1906ءمیں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ بھیج دیا۔ انگریز کی غلامی اور اُمت مسلمہ بالخصوص ترکی کے احوال نے نوجوان عبدالرحمن کے دل میں انقلاب کی چنگاری سُلگا رکھی تھی۔ حسرت موہانی کا قیام بھی اُن دِنوں علی گڑھ میں تھا جو وہاں سے ’’اردوئے معلی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکال رہے تھے۔ حسرت موہانی کے ’’باغیانہ خیالات‘‘ کی وجہ سے علی گڑھ کالج نے اِس رسالے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن عبدالرحمٰن کے تکیے تلے یہ رسالہ پڑا رہتا۔ وہ اکثر حسرت موہانی سے ملنے بھی چلا جاتا۔ اپریل 1908ءکے شمارے میں مِصر میں انگریزوں کی پالیسیوں کیخلاف ایک زور دار مضمون شائع ہوا۔ مضمون نگار کے نام کی جگہ لکھا تھا ۔’’ایک طالبعلم‘‘۔ علی گڑھ کالج میں کہرام مچ گیا۔ حسرت موہانی تو گرفتار ہوگئے۔ دو سال قید بامشقت کی سزا پائی اور جیل چلے گئے۔ علی گڑھ کی انتظامیہ ’’ایک طالب علم‘‘ کا سراغ لگاتے لگاتے عبدالرحمن تک پہنچی۔ اُسے تین سال کیلئے کالج بدر کردیا گیا۔
عبدالرحمن تعلیم جاری رکھنے کی جدوجہد میں شملہ چلا گیا۔ اُس کی عمر بہ مشکل بیس برس تھی لیکن اچانک وہ دِل کی کسی پیچیدہ اور کربناک بیماری کا شکار ہوکر طبیبوں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا ہوکے رہ گیا۔ 1911ءمیں تین سالہ کالج بدری کا دور ختم ہوا تو وہ علی گڑھ کالج واپس آگیا ۔ انقلاب کی تڑپ، اب کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پہلے طرابلس کا معرکہ درپیش ہوا پھر 1912ءمیں بلقان کی جنگ چھڑ گئی تو عبدالرحمن نے ایک دوٹوک فیصلہ کیا۔ ’’کچھ بھی ہو میں بلقان جائوں گا اور ترک بھائیوں کے شانہ بہ شانہ اُن کے دشمنوں سے لڑوں گا۔‘‘ عبدالرحمن کے عشق نے اُسے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے اُس ستائیس رُکنی طبّی مشن کا حصہ بنا دیا جو سرکردہ مسلم راہنمائوں کی کوششوں سے، زخمی ترکوں کے علاج معالجے کیلئے استنبول جا رہا تھا۔ مشن میں شمولیت کیلئے زادِ راہ کے طورپر ایک ہزار روپے مطلوب تھے۔عبدالرحمن اپنے مشن کو خاندان سے چھپائے ہوئے تھا۔ سو اپنی کتابیں، قیمتی ساز و سامان، نادر تصویریں، کالج کے پروفیسروں اور ساتھیوں کے ہاتھ فروخت کرکے ایک ہزار روپے جمع کئے۔ استنبول اُسے بلا رہا تھا۔
طبّی مشن تو اپنا کام مکمل کرکے 1913ءمیں واپس آگیا لیکن عبدالرحمٰن وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اب وہ ترکوں میں عبدالرحمٰن پشاوری‘ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور پشاور میں اُسکا خاندان، ہزاروں میل دور جابسنے والے عبدالرحمن کو ’’ تُرک لالہ‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگا تھا۔
1914ءمیں ’تُرک لالہ‘ نے فوج میں شامل ہونے کی ٹھانی۔ قسطنطنیہ اور بیروت میں فوجی تربیت پائی۔ جنگ ِعظیم کا طبل بجا تو لیفٹیننٹ عبدالرحمن کو ایک دَستے کی کمان سونپ کر سب سے اہم جنگی محاذ درّہ دانیال بھیج دیاگیا۔ اُسکے جری معرکوں اور جانبازی کی داستان خاصی طویل ہے۔ وہ تین بار شدید زخمی ہوا۔ تینوں بار موت کو شکست دے کر سرِمیدان آ گیا۔ استنبول پر اتحادی افواج کے قبضے کے بعد عبدالرحمٰن نے باضابطہ طورپر اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کی سپاہِ آزادی میں شمولیت اختیار کرلی۔ عثمانی فوج اور سپاہِ آزادی میں نمایاں کردار کے باعث، عبدالرحمن کی تُرک بحریہ کے سربراہ، رئوف بے سے گہری دوستی قائم ہوگئی۔ رئوف کی والدہ عبدالرحمن کو اپنا بیٹا کہا کرتی تھیں۔ یہی رئوف بے جدید ترکی کے وزیراعظم بھی رہے۔ انقرہ میں اتا ترک نے حکومت قائم کی تو عبدالرحمٰن پشاوری کو 1921ءمیں افغانستان کا سفیر تعینات کردیا گیا۔ تقریباً دو سال اِس منفرد منصب پر قائم رہتے ہوئے بھی عبدالرحمن، اپنے گھر پشاور نہیں آیا البتہ اُس کے والد، حاجی غلام صمدانی اپنے بیٹے سے ملنے کابل گئے۔ عبدالرحمن استنبول واپس آیا تو سیاسی فضا بدلی ہوئی تھی۔ رئوف بے نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنالی۔ عبدالرحمن بھی اس جماعت میں شامل ہوگیا۔ انہی دنوں اسکے گہرے رابطے مولانا عبیداللہ سندھی سے ہوئے جو استنبول میں قیام پذیر تھے۔ مشکلات سے دوچار عبیداللہ سندھی کی مدد کیلئے عبدالرحمن نے بھرپور کردار ادا کیا۔
جنت تلواروں کے سائے تلے
آج سے ایک سو سال پہلے20اور 21مئی 1925ءکی درمیانی شب عبدالرحمن اپنے گھر جارہا تھا کہ استنبول کی ایک سڑک پر گولیاں برسا کر شدید زخمی کردیا گیا۔ ایک ماہ اسپتال میں رہنے کے بعد عبدالرحمن پشاوری، 39سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگیا۔ اُسے استنبول کے قدیم تاریخی قبرستان میں پورے سیاسی اور عسکری اعزاز کیساتھ سپرد خاک کردیاگیا۔ عبدالرحمٰن پشاوری کی داستان، ایک عشق، ایک دیوانگی اور ایک جنوں کی داستاں ہے۔ اِسے عقل وخرد کے پیمانوں سے ماپا اور جانچا نہیں جاسکتا۔ ایک پچیس سالہ نوجوان کے جی میں کیا سمائی کہ اُس نے علی گڑھ چھوڑا، اپنے والدین اور بھرے پُرے خاندان سے ناتا توڑا، اپنے وطن سے ہجرت کی، عثمانیوں پر ٹوٹنے والے کوہِ غم سے آزادی کی صبحِ خوش جمال تراشنے کیلئے درجنوں معرکوں کو اپنا لہو دیا اور پھر ایک شب اُس کا لہو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی مرقدِ پُرنور کے نواح میں خاکِ قسطنطنیہ کی نذر ہوگیا۔ عبدالرحمٰن پشاوری، آج بھی ترکوں کا ہیرو ہے۔ گزشتہ روز استنبول یونیورسٹی کے ایک بڑے اجتماع میں اُس کی سو سالہ برسی منائی گئی۔ شاید اُس کے خاندان کے بچے کھچے افراد کو بھی ’ تُرک لالہ ‘ کی کچھ خبر ہو۔ لیکن پاکستان بھر کی عالی مرتبت درس گاہوں میں جاکر نوجوانوں سے پوچھئے۔ اُنکے اساتذہ سے پوچھئے۔ ’’عبدالرحمٰن پشاوری کون تھا؟‘‘سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کو دیکھتے رہ جائیں گے۔