اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی ذہنی صحت پر سوال اٹھنے لگے

اڈیالہ جیل عمران خان سے گاہے بگاہے ملاقاتیں کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما اب اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ لمبی قید بانی پی ٹی آئی کی ذہنی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے جس کا نقصان غلط اور جذباتی فیصلوں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں سے نکلنے کے بعد مسلسل ناکامی کا شکار شرپسندانہ پالیسیوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ذہنی صحت کو شدید زد پہنچائی ہے۔ رہائی کی تمام راہیں مسدود ہونے کے بعد جیل میں اختیار کئے گئے جارحانہ طرز عمل کے بعد جہاں عمران خان کی ذہنی صحت پر سوال اٹھ رہے ہیں وہیں دوسری جانب جیل حکام نے کسی غیر متوقع صورتحال سے بچنے کیلئے عمران خان کی ذہنی صحت کی جانچ کیلئے فوری ماہرین نفسیات کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان کی ذہنی صحت کے حوالے سے خبریں پہلی دفعہ منظر عام پر نہیں آئیں بلکہ کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان کو کوئی ایسی چیز دی گئی ہے، جس سے ان کا ذہنی توازن بگڑنے کا خطرہ ہے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں قاسم خان سوری نے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھاکہ ’عمران خان کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کرکے کسی زہریلی چیز کا اسپرے کیا گیا ہے، جس کی بو ان کے ذہن پر اثر کر رہی ہے، عمران خان کی طبیعت خراب ہے اور جان کو شدید خطرات لاحق ہیں‘۔پی ٹی آئی کے آفیشل پیج سے بھی قاسم سوری کی پوسٹ کو شئیر کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں پی ٹی آئی رہنماؤں نے قاسم سوری کی خبروں کی تردیدکی تھی۔

تاہم اب اڈیالہ جیل  میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ جیل میں عمران خان کا عمومی رویہ معمول سے ہٹ رہا ہے جبکہ جذبات کے اظہار میں عمران خان افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی صحت میں بڑا بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیاہے۔ جیل انتظامیہ نے عمران خان کی طبی صورتحال بے قابو ہونے سے پہلے ان کے معمول کے طبی معائنے کےساتھ اب ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے جیل حکام نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم قابل اعتماد ذرائع کے مطابق جیل میں آرام اور خوراک کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کےباوجودعمران کی جیل کے ماحول کے بارے میں شکایت ناقابل فہم ہےکیونکہ عمران خان کو جیل قواعد سے کہیں بڑھ کر آسائشیں فراہم کی جارہی ہیں۔ تاہم اپنی سیاہ کاریوں کو پس پشت ڈال کر عمران خان کو لگتا ہے کہ انھیں جیل میں رکھ کر ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس ظلم میں وہ حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی قصور وار قرار دے رہے ہیں، مبصرین کے مطابق ٹوئٹر پر جاری کئے جانے والے بیانات عمران خان کی اسی ذہنی حالت اور غم و غصے کو ظاہر کرتے ہیں۔

دوسری جانب ماہرین نفسیات کے مطابق سیاستدانوں میں عمران خان کی طرح کی بےچینی پائی جانا غیرمعمولی نہیں۔ سیاسی رہنما اکثر اوقات غصے، مایوسی، ضد، انتقام، غرور اور اپنے پختہ یقین کو دوسروں پر نافذ کر سکتے ہیں بالخصوص تب کہ جب انہیں کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس ذہنی حالت میں انھیں مہلک ترین اقدامات بھی جائز لگتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان بھی اس ذہنی عارضے کا شکار ہو چکے ہیں، ماہرین کے مطابق ہٹلر بھی ایسے ہی ذہنی عارضے کا شکار تھا اس بنا پر دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں اپنے بنکر میں محصور ایڈولف ہٹلر نے حکم دیا تھا کہ وہ جرمنی کی مکمل تباہی چاہتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں جرمن عوام نے اسے مایوس کیا۔ 1941ء میں جب جاپانی وزیردفاع نے امریکی بحریہ پر حملے کا حکم دیا تو اس نے بھی کہا تھا، ’کبھی کبھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ آنکھیں بند کرلیں اور بپھرے دریا چھلانگ لگا دیں‘۔ لگتا ہے عمران خان بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ملک اور ریاست کو تباہ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے

ماہرین نفسیات کے مطابق دباؤ، پاگل پن اور اثرورسوخ کھونے کے خوف کے سیاستدان پر تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر کسی رہنما نے اثرورسوخ اور بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرلی ہے لیکن پھر اسے محسوس ہونے لگے کہ وہ اسے کھونے کے قریب ہے تو وہ جارحانہ طریقوں سے بھی طاقت کی بحالی کی سازشیں کرسکتا ہے۔ یہ وہ موڑ ہوتا ہے جب ایک سیاستدان ’خطرناک‘ ہوجاتا ہے۔ ماہرین ایسی حالت کو خطرناک لیڈر کا ڈس آرڈر قرار دیتے ہیں۔ اس کے ڈس آرڈر میں تنقید کے حوالے سے عدم برداشت اور خود کو خصوصی شہری سمجھنے کا احساس شامل ہیں۔یہی تمام علامات عمران خان میں بدرجہ اتم موجود ہیں کیونکہ جیل میں قید عمران خان  تنقید کو اچھے انداز میں نہیں لیتے، حتیٰ کہ جیل میں بھی انہیں یقین ہے کہ وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں گے اور ملک کو اس طرح چلائیں گے جیسے وہ چلانا چاہتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق گزشتہ تین ملٹری نے عمران خان کی سورت میں ایسے شخص پر سرمایہ کاری کی جو ’مناسب سیاست‘ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، جو جذباتی، اناپرست، توہم پرست ہے وہ منظر نامے سے ہٹنے کے بعد وہ اپنی سابقہ پوزیشن کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پوزیشن ان سے چھینی نہیں گئی۔ انہوں نے متعدد مواقع پر غیرمعقول رویے سے اسے خود گنوایا۔ ملٹری اسٹیبلسمنٹ نے انہیں ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنے لگی۔ کیونکہ عمران خان اعلیٰ رینک کے فوجی افسران اور ججز کے ہمراہ تمام اپوزیشن کو ختم کرکے اقتدار میں رہنے کی سازش کررہے تھے، پاکستان کو یک جماعتی ملک بنانا چاہتے تھے اور ملٹری کو اپنی ذاتی پولیس فورس میں تبدیل کررہے تھے۔

غیر سیاسی بشریٰ بی بی دوبارہ سیاسی کیوں ہو گئیں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ عمران خان کے پاگل پن کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب 2022ء میں انہیں آئین کی مدد سے اقتدار سے بےدخل کیا گیا اور پھر انہیں متعدد الزامات پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہی وہ موقع تھا عمران خان کی صورت میں خطرناک لیڈر کا ڈس آرڈر متحرک ہوا اور یہی ڈس آرڈر اب ان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے کسی بھی امکان کو ختم کررہا ہے۔

Back to top button