عمران خان کی رہائی کی تحریک دوبارہ ناکامی کا شکار کیوں ہوگئی ؟

عمران خان اور انکی بہنوں کی جانب سے مسلسل کنفیوزنگ اور دوغلے بیانات کے باعث تحریک انصاف میں انتشار اور توڑ پھوڑ کا عمل تیز تر ہو گیا ہے اور عمران کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی ایک اور مجوزہ تحریک ابھی سے ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے پارٹی کی سیاسی قیادت کو پیچھے کرنے اور اپنی بہنوں کو آگے لانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چین آف کمانڈ ٹوٹ گئی ہے اور پارٹی بکھر چکی ہے۔
اس دوران عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک مرتبہ پھر دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے پہلے حکومت کو خان کی رہائی کے لیے ڈیل کی کھلی پیشکش کی اور پھر خان کی رہائی کے لیے ایک تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے دیا، تاہم یہ تحریک چلانے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تپتی گرمی کے موسم میں پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ایک طرف کارکنوں کو تحریک کے لیے بھرپور تیاری کی ہدایات دی جا رہی ہیں تو دوسری جانب ورکرز مایوس اور ناراض نظر آرہے ہیں۔یاد رہے کہ پشاور میں 26 مئی کو ہونے والے احتجاجی جلسے میں پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی قیادت غیر حاضر رہی، یاد رہے کہ قبائلی علاقوں میں حال ہی میں ہونے والے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سمیت بیشتر ارکان اسمبلی شریک نہیں ہوئے۔
پارٹی رہنماؤں کے اس رویے کی وجہ سے کارکنوں نے اپنی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں اسد قیصر، شاندانہ گلزار خان اور صوبائی وزیر مینہ خان موجود تھے جبکہ صوبائی صدر جنید اکبر اور ایم این اے عاطف خان احتجاج کے اختتام پر پہنچے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کی عدم شرکت پر ورکرز کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔اس احتجاج میں تاخیر سے پہنچنے پر جنید اکبر خان کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی اور انہیں تقریر کرنے کا موقع تک نہ ملا۔ یاد رہے کہ علی امین اور جنید گروپ پارٹی کے دو متحارب دھڑوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے احتجاج میں دونوں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے جلسوں میں مرکزی قیادت کی مسلسل غیر حاضری اور عدم دلچسپی سے کارکنوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت کارکنوں کو یکجا کرنے کا ہے، اگر قیادت آپس میں اختلافات کے باعث اسی طرح سیاسی سرگرمیوں سے دُور رہی تو عمران خان کی رہائی کی تحریک کو نقصان پہنچے گا۔ پارٹی ورکرز کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے چند رہنما صرف اقتدار کے مزے لینے میں مصروف ہیں اور وہ عمران کی رہائی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب خان کی رہائی کے لیے شدید گرمی کے موسم میں تحریک چلانے کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ تحریک ایک مرتبہ پھر ناکام ہو جائے گی۔ پارٹی کارکنان کا کہنا تھا کہ شاید عمران خان کے قریبی لوگ یہ چاہتے ہی نہیں کہ ان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی کوئی تحریک کامیاب ہو۔
دوسری جانب ترجمان وزیراعلٰی خیبر پختونخوا فراز مغل کا کہنا ہے کہ ’ہم علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پوری تیاری کے ساتھ عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک چلانے نکلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ گنڈاپور اپنے کپتان کو اڈیالہ جیل سے رہا کروا کر ہی واپس لوٹیں گے۔ انکا مذید کہنا تھا کہ وزیراعلٰی کا جنید اکبر کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں اور دونوں صرف عمران خان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاہم خیبر پختون خوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی محمود جان بابر کی رائے میں اس وقت پی ٹی آئی کی ’چین آف کمانڈ‘ ٹُوٹ چکی ہے اور اس کی زیادہ ذمہ داری جیل میں موجود بانی چیئرمین پر عائد ہوتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’عمران خان جب سے جیل میں قید ہوئے ہیں وہ اپنی رہائی کے لیے الگ الگ شخصیات کو الگ الگ ٹاسک سونپ رہے ہیں، علی امین گنڈاپور کو کچھ کہا جاتا ہے، جنید اکبر کو الگ ہدایات دی جاتی ہیں جبکہ علیمہ خان کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو کبھی ایک اور کبھی دوسرا پیغام دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک روز علیمہ خان اس عمران کی رہائی کے لیے کھلے عام ڈیل کی پیشکش کرتی ہیں اور دوسرے روز خان کی رہائی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کر دیتی ہیں۔
1996 میں صدر لغاری نے اپنی محسن بی بی شہید کی حکومت کیسے توڑی؟
محمود جان بابر کہتے ہیں کہ اس وقت نہ تو تحریک انصاف کے رہنما ایک پیج پر ہیں اور نہ ہی پارٹی کا سٹرکچر باقی بچا ہے۔ اس صورتحال کے ذمہ دار عمران خان خود ہیں جو کبھی ایک پارٹی رہنما کو چوہدری بناتے ہیں اور کبھی دوسرے کو۔ اس وقت مرکز اور صوبے میں الگ الگ پاور ہاؤسز موجود ہیں جو اپنی اپنی پالیسیاں لے کر چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسد قیصر کا الگ گروپ ہے، اسی طرح جنید اکبر کا الگ جبکہ علی امین گنڈاپور کا الگ پاور ہاؤس ہے۔ اس کے علاوہ مشتاق غنی اور سپیکر خیبر پختون خوا اسمبلی نے اپنا الگ گروپ بنا رکھا ہے۔ اس صورتحال نے پارٹی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے لہذا عمران خان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی کسی تحریک کی کامیابی کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔