پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا
سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کا تازہ بیانیہ ’’عمران تو ایک بہانہ ہے اور دراصل ہمارا ایٹمی پروگرام امریکہ کا اصل نشانہ ہے‘‘ ایک نئی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر اپنی تقریر میں بلاول بھٹو نے جو بیانیہ اپنایا وہ دراصل ریاستی بیانیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا تو پاکستان بھی جواب میں للکارے گا اور ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو اس وقت کی نوجوان قیادت میں سب سے ذہین مانے جاتے ہیں۔ بیرونی تعلیم، خاندانی تربیت اور سیاسی روایات کے حامل ہوتے ہوئے انہوں نے وزیر خارجہ رہنے کا تجربہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ بطور وزیر خارجہ انہوں نے سعودیوں، امریکیوں اور بہت سےملکوں کے سفارت کاروں میں اپنے چاہنے والے بھی پیدا کر لئے، ان کی وزارت خارجہ ہے دوران صرف اسرائیلی اور بھارتی وزارت خارجہ ہی ان سے ناراض ہوئی۔ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے چھوٹے موٹے اختلاف کے باوجود وہ مجموعی طور پر ریاستی بیانیے کو بین الاقوامی طور پر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر بلاول بھٹو کا امریکہ کو دیا گیا سخت جواب ریاستی بیانیہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بدلتا بیانیہ پاکستان پر کس کس طرح سے اثر انداز ہوگا اس کیلئے پورے پاکستان کو تیار ہونا ہوگا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ نے عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈالا تو کیا پاکستان ٹرمپ کے سامنے جھک کر عمران کو رعایتیں دے گا یا ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا؟ بلاول کا بیانیہ یہ بتا رہا ہے کہ ریاست دبائو کی صورت میں ڈٹ سکتی ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بلاول کا بیانیہ مقبول تو ہوگا مگر اس میں خطرات بھی بہت ہیں سپرپاور سے لڑائی اور مخالفت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے کمزور معیشت اور اندرونی سیاسی، مذہبی اور علاقائی لڑائیاں پاکستان کے بہت بڑے مسائل ہیں، کوئی بڑی کشمکش ہوئی تو پاکستان کی فالٹ لائنز کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ لہازا ایسے میں تنازعہ بڑھانے کے بجائے ڈائیلاگ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد پاکستان غیر متعلق ہو چکا تھا۔ امریکی تھنک ٹینکس کا خیال تھا کہ پاکستان قابل اصلاح نہیں اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، انکے خیال میں اسکا علاج صرف یہ ہے کہ یہ آکسیجن ٹینٹ میں رہے، نہ مرے نہ جیے، بس سانس لیتا رہے۔ معیشت کی رسی کس کر رکھی جائے تاکہ یہ خود ہی اپنی نیوکلیئر اور جہادی پالیسیوں سے توبہ تائب ہو جائے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ باجوہ مغربی دنیا میں وقت گزار چکے تھے اس لئے انہوں نے اپنے دور میں مغربی دنیا کو ناراض کرنے والی پروچائنہ پالیسی کی رفتار کم کردی۔ جنرل باجوہ کے آنے سے پہلے پاکستان تیزی سے چینی کیمپ میں جا رہا تھا اور امریکہ کا خیال تھا کہ یہ برما کی طرح چینی کالونی یا سیٹلائٹ بننے جا رہا ہے چنانچہ باجوہ اور عمران دور میں امریکی تحفظات دور کردیئے گئے، پاک چین سی پیک پراجیکٹ پر توجہ اور ترجیح ختم کر دی گئی اور امریکہ کے ساتھ معاملات میں بہتری آ گئی۔ لیکن اسکے باوجود امریکہ نے پاکستان کو کسی بھی طرح کی امداد دینے سے گریز کیا۔ اس دوران پاکستان خاموشی، تنہائی اور بے اعتنائی کا شکار رہا۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ کئی دہائیوں سے دنیا کے نقشے میں سرگرم ترین ملک اچانک سرد مہر کیسے رہ سکتا ہے؟ دو عالمی افغان جنگوں میں مرکزی کردارکا مالک زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتا۔
کیا امریکہ پاکستان پر پابندیوں لگا کر عمران کو رہا کروانا چاہتا ہے ؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ موقع کا انتظار تھا اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نئے عالمی ماحول میں پھر سے سر اٹھانے لگا ہے۔ لیکن 75 سال تک ہم امریکی کیمپ میں کرائے کے سپاہی کے طور پر رہے اور اس کے فوائد سمیٹتے رہے، لیکن اب ہم اپنے بازو کے پٹھے پُھلا کر دکھا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کا بیانیہ کہ ’’عمران ایک بہانہ ہے، اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام اصل میں امریکی نشانہ ہے‘‘ دراصل نئی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ ایسے میں اگر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے دبائو ڈالا تو پاکستان بھی للکار سے جواب دے گا اور ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا۔