افغان طالبان کو سیدھا کرنے کے لیے پاک امریکہ کارروائی کا امکان

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ نئے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے پہلے خطاب میں دہشت گردوں کی رہی سہی پناہ گاہیں ختم کرنے اور افغانستان میں اتحادی افواج کا چھوڑا گیا اسلحہ واپس لینے کے اعلانات کے بعد افغانستان پر ایک نئی جنگ کے بادل منڈلانا شروع ہو گئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ماضی میں بھی اتحادی افواج کے افغانستان سے اچانک انخلا کی مخالفت کی تھی لہٰذا قوی امکان موجود ہے کہ امریکہ اور پاکستان مشترکہ طور پر افغانستان میں چھپے ہوئے مطلوب دہشت گردوں کے خلاف ایک مشترکہ کارروائی شروع کریں جس سے افغانستان میں ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
انگریزی روزنامہ دی نیوز میں اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد اب یہ امکان ہے کہ افغان سرزمین سے طالبان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان اور امریکہ ایک بار پھر ایک پیج پر آ جائیں۔ یاد رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے اتحادی افواج کے اچانک انخلا پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے بائیڈن پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو محفوظ کیے بغیر عجلت میں افغانستان سے اچانک نکل گئے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا اسلحہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے ہتھے چڑھ گیا اور اب پاکستان یہ شکایت کر رہا ہے کہ چھوڑا ہوا امریکی اسلحہ اور گولہ بارود اب پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول اب پاکستان اور امریکہ کو ان مہلک ہتھیاروں کو واپس لینے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں، صدر ٹرمپ نے امریکہ میں افغان مہاجرین کا داخلہ روکنے کا اعلان کرنے کے علاوہ خطے میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ انکے مطابق یہ اعلانات ایک نئی افغان جنگ کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں پاکستان ایک بار پھر فرنٹ فٹ پر ہوگا۔ یاد رہے کہ القاعدہ کے خلاف امریکہ کی آخری جنگ ڈرون ٹیکنالوجی سے جیتی گئی تھی، جیسا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ سٹنگر ٹیکنالوجی سے جیتی گئی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے پاس ڈرونز کی ایک خاصی تعداد موجود ہے، لیکن مخصوص اہداف پر سو فیصد درست نشانہ لگانے کیلئے انتہائی جدید اور قابل بھروسہ امریکی ڈرونز کی ضرورت ہو گی، ماضی میں امریکی سی آئی اے نے انہی ڈرونز کے ذریعے نہ صرف القاعدہ کی مرکزی قیادت کو ختم کر دیا تھا بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے چار امیر بھی اسی ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے مارے تھے۔
سہیل وڑائچ کے بقول آج پاکستان کو ایک بار پھر ایک نئی جنگ کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ایک جنگی معیشت دوبارہ حاوی ہو جائے گی۔ اس سے پاکستان کو ماضی کی جنگوں کی طرح معاشی اور سیاسی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ وقتی طور پر پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگراموں پر آنکھیں بند کر لے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ قوموں اور ملکوں کو جنگوں کی ہمیشہ بھاری قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ پہلی دو افغان جنگیں پاکستان میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت لے کر آئیں۔ اس سے پہلے ہمیں ضیاء کے مارشل لا کے دوران ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر بھگتنا پڑے۔ اس لیے ایک نئی افغان جنگ بھی پاکستان کے لیے چیلنجنگ ہوگی جسے نظریاتی اور سٹریٹیجک، دونوں محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستانی فوج نے تمام جنگیں اسلام کے نام پر کفار کے خلاف لڑی ہیں لیکن طالبان کے خلاف جنگ مسلمانوں کی اندرونی لڑائی ہوگی۔ اگرچہ پاکستانی ریاست نے طالبان پر خوارج کا لیبل لگا دیا ہے، لیکن بہت سے دیوبندی مسلمان اب بھی ان سے متاثر ہیں۔ اگر نئی افغان جنگ شروع ہوتی ہے تو ریاست پاکستان کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں دردناک پروپیگنڈہ جنم لے گا۔ پاکستان کے اندر عسکریت پسندی کے حامی مذہبی رہنما اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے، جس سے مذہبی فرقہ واریت کی بلندی اور خطرناک سطح پر پہنچ جائے گی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے اپنے جغرافیے کا مستقل قیدی بنا ہوا ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں پاکستان نے چھ کھلی جنگیں لڑیں اور درجنوں خفیہ جنگوں کا تجربہ کیا۔ چاہے یہ جنگیں پاکستان پر مسلط کی گئی ہوں، یا اس نے رضاکارانہ طور پر قبول کی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی مختصر زندگی میں افغانستان میں دو بین الاقوامی جنگوں میں حصہ لینے کے علاوہ بھارت کے ساتھ چار خونریز جنگیں لڑ چکا ہے۔
انکے بقول اسے پاکستان کی خوش قسمتی سمجھئیے یا بدقسمتی کہ یہ بھارت، افغانستان، ایران اور چین جیسے ہمسایہ ممالک میں گھرا ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ چین کے علاوہ پاکستان کے تمام پڑوسیوں کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں۔ ہم نے ایران کے ساتھ فرقہ وارانہ تنازعات تو دیکھے ہیں لیکن خوش قسمتی سے، ہماری کبھی کھلی جنگ نہیں ہوئی، حالانکہ خفیہ سازشیں جاری رہتی ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان پر جنگی معیشت چلانے کا الزام لگاتے ہیں، لیکن اس الزام کی بنیادی وجہ ہمارا جغرافیہ ہے جس کے پاکستان کو فائدے اور نقصانات دونوں ہیں۔ بھارت چونکہ ہمارا پڑوسی ہے لہازا پاکستان کے پاس اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کے لیے اسکے جنگی عزائم کا جواب جنگ سے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ اگر یہ ایسا نہ کرتا تو اسے بھی نیپال اور بھوٹان کی طرح خطے میں بھارت کی مکمل بالادستی قبول کرنا پڑتی۔
سہیل وڑائچ کے بقول بھارت کے ساتھ چار جنگوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ رہنے کے لیے ہے اور اس کی خودمختاری اور فلسفہ پانچ گنا بڑے بھارت سے بھی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان کے پاس دوسرا آپشن یہ تھا کہ انڈیا کے ساتھ اتحاد کیا جائے اور ایک علاقائی سپر پاور کے طور پر اس کے تسلط کو قبول کیا جائے، جس سے امن، بہتر معیشت، تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر آ سکتی تھیں، لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے اپنی خود مختاری کی قربانی دینا پڑتی۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کے ذیادہ تر مسائل کا ذمہ دار ہمارا جغرافیہ ہے۔ ہم پہلے ہی افغانستان کے اندر دو جنگیں کر چکے ہیں، اور تیسری جنگ سامنے کھڑی ہے۔ انکے مطابق اگرچہ افغانستان ہمارا برادر مسلم ملک ہے لیکن 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے مابین سرحدی مسائل چلتے آ رہے ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان نے کابل میں افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بار بار ایک ہی مطالبہ کیا کہ تحریک طالبان کے جنگجوں کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے سے روکا جائے۔ اس حوالے سے پاکستان نے افغان طالبان حکومت کو قائل کرنے کے لیے تمام آپشنز آزمائی ہیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان کی افغانیوں کے لیے تین دہائیوں کی قربانیوں کو آسانی سے بھلا دیا گیا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ماضی میں پاکستان کے مہمان رہنے والے افغان طالبان ماتھے۔پر آنکھیں رکھ کر اب ہمارے کھلے دشمن بن چکے ہیں۔ اس لیے اب پاکستان بھی مجبور یے اور اسکے پاس افغان طالبان سے جنگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں باقی نہیں بچا ہے۔
ایف آئی اے روزانہ سینکڑوں مسافروں کو آف لوڈ کیوں کرنے لگا ؟
سہیل وڑائچ کے بقول کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ہم ایک اور جنگ لڑنے کے بجائے افغانستان اور بھارت کے ساتھ تجارتی راستے کھول کر اپنے جغرافیہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک تجارتی راستے قائم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یکے بعد دیگرے پاکستانی وزرائے اعظم اس راستے کو کھولنے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن افغان اور بھارتی حکومتوں کی وجہ سے ایسی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس لیے اب پاکستان واخان راہداری کے ذریعے وسطی ایشیا تک تجارتی راستہ بنانے کے لیے تاجکستان کے ساتھ معاہدے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم یہ متبادل راستہ افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ اس لیے افغانستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کو عسکری آپشن ہی استعمال کرنا پڑے گی۔