ملک ریاض کے خلاف نیب ایکشن کا خمیازہ عوام بھگتنے لگے

نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کی گئی کارروائی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں بڑے تعمیراتی منصوبوں اور جدید رہائشی سہولیات کی علامت سمجھے جانے والے بحریہ ٹاؤن پر نیب کی یلغار نے لاکھوں شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کیلئے بلا تعطل بجلی کی فراہمی، معیاری سیکیورٹی کی دستیابی صفائی کے مربوط نظام اور جدید طرزِ زندگی کی سہولیات کا تسلسل ایک چیلنج بن چکا ہے۔جس پر بحریہ ٹاؤن کے مکین سراپا احتجاج ہیں۔
خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب اور دیگر اداروں کی جانب سے بحریہ ٹاؤن اور اس کے چیئرمین ملک ریاض کے خلاف جاری تحقیقات اور اثاثوں کی ضبطی نے بحریہ ٹاؤن کے معمولات زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف کسی فرد یا کمپنی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسا بحران ہے جس کا بوجھ اس وقت وہ عام شہری اٹھا رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی یہاں کے گھر اور اپارٹمنٹ خریدنے پر لگا رکھی ہے۔
نیب کی حالیہ کارروائیوں کے بعد بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض نے واضح کر دیا ہے کہ مسلسل حکومتی دباؤ، بینک اکاؤنٹس کی منجمدی، گاڑیوں کی ضبطی اور عملے کی گرفتاریوں نے بحریہ ٹاؤن کی مالی صورتحال کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ سروسز فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ وہی سروسز ہیں جن کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن ملک بھر میں ممتاز رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن صرف ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بلکہ ایک مکمل لائف اسٹائل برانڈ بن چکا ہے، جہاں بجلی کے اپنے گرڈ اسٹیشن، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے جنریٹرز، جدید انفراسٹرکچر اور ہسپتال و اسکول جیسی سہولتیں اسے باقی رہائشی منصوبوں سے منفرد بناتے ہیں۔ اگر اداروں کی کارروائیوں کی وجہ سے یہ سہولیات متاثر ہوتی ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انہی معصوم شہریوں کو ہوگا جو کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل نہیں بلکہ صرف پرسکون زندگی کے متلاشی ہیں۔ ناقدین کے مطابق پاکستان کے تعمیراتی اور رہائشی منصوبوں میں بحریہ ٹاؤن ایک ایسا نام ہے جس نے ملک میں شہری طرزِ زندگی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جدید انفراسٹرکچر، عالمی معیار کی سہولیات، اور بلا تعطل بجلی و پانی جیسی بنیادی سہولتیں وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے بحریہ ٹاؤن کو لاکھوں شہریوں کی پہلی پسند بنایا۔ لیکن حالیہ مہینوں میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر حکومتی اداروں کی کارروائیوں نے اس عظیم رہائشی منصوبے کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ کارروائیاں اگرچہ بظاہر کرپشن اور غیر قانونی لین دین کے خاتمے کے لیے کی جا رہی ہیں، لیکن اس کا اصل بوجھ ان لاکھوں معصوم شہریوں پر پڑ رہا ہے جن کا کسی قانونی تنازع سے کوئی تعلق نہیں۔
نیب ملک ریاض کی 6 میں سے صرف ایک جائیداد بیچنے میں کامیاب
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کی سب سے نمایاں خصوصیت بلا تعطل بجلی کی فراہمی ہے۔ سوسائٹی نے اپنے گرڈ اسٹیشن اور بڑے جنریٹرز قائم کر رکھے ہیں جن کی مدد سے رہائشیوں کو لوڈشیڈنگ سے مکمل نجات ملتی ہے۔ یہ سہولت عام پاکستانی شہروں میں نایاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں خاندان اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کر بحریہ ٹاؤن میں گھر بنانا اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔اسی طرح سکیورٹی کا معیار بھی بحریہ ٹاؤن کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ تربیت یافتہ گارڈز، جدید سی سی ٹی وی کیمروں کا جال، اور گیٹڈ کمیونٹی کا نظام یہاں کے رہائشیوں کو ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی اور کچرا اُٹھانے کا مربوط نظام بھی بحریہ ٹاؤن کا خاصہ ہے، جس کی بدولت یہاں رہائشی ماحول صاف اور صحت مند رہتا ہے۔انفراسٹرکچر کے اعتبار سے بھی بحریہ ٹاؤن اپنی مثال آپ ہے۔ کشادہ سڑکیں، خوبصورت پارکس، جدید طرز کے ہسپتال، معیاری اسکول، اور بڑے شاپنگ مالز اس رہائشی شہر کو ایک مکمل لائف اسٹائل برانڈ بناتے ہیں۔ یہی تمام خصوصیات وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن دیگر رہائشی منصوبوں سے کئی قدم آگے ہے۔ مگر حالیہ ادارہ جاتی کارروائیوں کے بعد یہ سہولیات متاثر ہو رہی ہیں، صفائی میں تاخیر، پانی کی کمی، اور سکیورٹی کے معیار میں کمی جیسے مسائل اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض پر زمینوں کے قبضے، دھوکہ دہی، اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ کراچی، راولپنڈی، مری، پشاور، اور جامشورو میں بحریہ ٹاؤن نے سرکاری و نجی اراضی پر قبضہ کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کیں اور اربوں روپے کمائے۔ ایف آئی اے کا الزام ہے کہ سفاری ہسپتال کو منی لانڈرنگ کے لیے فرنٹ آفس کے طور پر استعمال کیا گیا اور اربوں روپے بیرون ملک منتقل کیے گئے۔ملک ریاض ان الزامات کو سیاسی انتقام اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے بینک اکاؤنٹس منجمد ہو چکے ہیں، گاڑیاں ضبط کر لی گئی ہیں، اور درجنوں عملے کے ارکان گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف کمپنی کی مالی روانی کو ختم کر دیا ہے بلکہ روزمرہ کے آپریشنز کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بحریہ ٹاؤن محض ایک نجی کمپنی نہیں بلکہ پاکستان کی تعمیراتی معیشت کا ایک بڑا ستون ہے۔ اس منصوبے نے جہاں تعمیراتی شعبے میں ہزاروں ملازمتیں پیدا کیں، سینکڑوں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو روزگار دیا، بلکہ اربوں روپے کا ٹیکس و فیسیں بھی حکومت کو ادا کیں۔ یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ایسے وقت میں جب ملکی معیشت پہلے ہی زوال کا شکار ہے، بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے منصوبے کو کمزور کرنا ملکی سرمایہ کاری کے ماحول کو مزید غیر محفوظ بنائے گا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو سکتا ہے۔ مبصرین کے بقول یہ وقت کسی ادارے یا شخص کی انا کا نہیں بلکہ عوامی مفاد کو ترجیح دینے کا ہے۔ اگر بحریہ ٹاؤن کے خلاف انتقامی کارروائیاں اب بھی بند نہ کی گئیںتو اس سے نہ صرف ملکی معیشت اور تعمیراتی شعبے کو زد پہنچے گی بلکہ عوام کا بھی ان کارروائیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا
