خودکش بمبار نے مولانا حامد الحق کے گلے لگنے کے بعد دھماکہ کیا

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والے دھماکے کی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ مولانا حامد الحق حقانی کو شہید کرنے والے خودکش بمبار نے نماز جمعہ ختم ہونے کا انتظار کیا جس کے بعد وہ شاگرد کی حیثیت سے اپنے ٹارگٹ کے گلے ملا اور پھر اچانک اپنی خود کش جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مولانا حامد الحق حقانی نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اپنے بیٹے اور بھتیجے کے ہمراہ مسجد سے نکل رہے تھے جبکہ خودکش بمبار مسجد کے اس کونے میں کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا جہاں سے مولانا گزرنے والے تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوا جب کہ درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ 57 سالہ حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم تھے۔ وہ 2002 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور 2018 میں اپنے والد مولانا سمیع الحق کے پراسرار قتل کے بعد جمعیت علمائے اسلام (سمیع گروپ) کے سربراہ بنے تھے۔ نوشہرہ کے ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملے کے وقت 23 پولیس اہلکار سیکیورٹی پر تعینات تھے جن میں سے چھ اہلکار صرف مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی کے لیے مختص تھے۔ پولیس افسر کے مطابق حامد الحق کو مسجد کے احاطے میں ہی ایک خودکش بمبار نے سلام کرنے کے بعد گلے لگتے ہوئے خودکش جیکٹ دھماکے سے اڑا دی۔ مولانا حامد الحق دھماکے میں شدید زخمی ہوئے اور بعد ازاں ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
مولانا سمیع الحق کو "فادر آف طالبان” کہا جاتا تھا جنہیں 2018 میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم حملہ آور نے چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔
حملے میں نشانہ بننے والا معروف دینی مدرسہ پاکستان کے مدارس میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور مختلف ادوار میں اس مدرسے کو حکومتی گرانٹ بھی دی جاتی رہی ہے۔ اس وقت افغان طالبان کی موجودہ کابینہ کے کئی وفاقی وزراء مدرسہ حقانیہ سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔ خودکش حملے میں مارے جانے والے مولانا حامد الحق جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہونے کے علاوہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔
ان کے والد مولانا سمیع الحق معروف سیاسی اور مذہبی شخصیت تھے۔ اس مدرسے کی بنیاد مولانا سمیع الحق کے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد یعنی ستمبر 1947 میں رکھی تھی۔
یہ مدرسہ جمعیت علمائے اسلام (سمیع گروپ) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو بابائے طالبان بھی کہا جاتا رہا ہے۔ یہ مدرسہ پشاور سے اسلام آباد جانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ پر اکوڑہ خٹک کے مقام پر واقع ہے۔ماضی میں افغانستان سے تجارت اور آمد و رفت کے لیے یہ ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے ماضی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے رہے ہیں۔
جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبا پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک پائے گئے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں پاکستان اور افغانستان میں جب بھی سیاسی یا عسکری طور پر کوئی تبدیلی سامنے آئی ہے تو اس وقت اس مدرسے کا کردار اور اس مدرسے کے سینیئر رہنماؤں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔
سال 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تو اس وقت بھی جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا نام سامنے آیا ہے۔ تب سکیورٹی امور کے تجزیہ کار عامر رانا نے کہا تھا کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کوئی عام مدرسہ نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی روایات رہی ہیں۔ اس میں علمی روایت کے علاوہ اس مدرسے کا عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے۔ عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس مدرسے کا پاکستان کی سیاسی و سکیورٹی صورتحال پر اثر اب بھی ہے اور اس وقت افغانستان کی حکومت، شوریٰ اور اداروں میں متعدد ایسے لوگ شامل ہیں جو اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں یا اس جامعہ سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔
امیرزادوں کے بگڑے بچے کب تک معصوم نوجوانوں کو قتل کرتے رہیں گے ؟
عامر رانا کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہےاور مختلف اوقات میں اس ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جب ریاستی اداروں کی پالیسیاں تبدیل ہوئیں تو اس مدرسے نے ان پالیسیوں کے لیے بھی کردار ادا کیا جیسا کہ پیغام پاکستان کا سلسلہ تھا جس میں مدرسے کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ بھی شامل ہے اور جامعہ حقانیہ کے قائدین اس پالیسی کو ساتھ لے کر چلے۔ انھوں نے کہا کہ اس ادارے کا ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔