سنتھا رچی کیس: رحمٰن ملک کی اپیل پر سپریم کورٹ نے نوٹسز جاری کردیے

سپریم کورٹ نے امریکی بلاگر سنتھیا رچی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک کی اپیل پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور متعلقہ فریقین کو نوٹسز ارسال کردیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنتھیا رچی کی جانب سے مبینہ ریپ پر رحمٰن ملک کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کیس پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے اسلام آباد ہائی کورٹ کے یکم ستمبر کے حکم کیخلاف دائر درخواست کی سماعت میں سردار لطیف کھوسہ نے رحمٰن ملک کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل ایڈیشنل اینڈ سیشن جج نے’اپنے جسٹس آف پیس کے دائرہ اختیار میں’ کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 (سی آر پی سی) کی دفعہ 22-اے، 22-بی کے تحت سنتھیا رچی کی درخواست مسترد کردی تھی جس میں پولیس کو رحمٰن ملک کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ رحمٰن ملک نے اپنی درخواست میں سنتھیا رچی، جسٹس آف پیس، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کمپلینٹ اسلام آباد اور سیکریٹریٹ پولیس اسلام آباد کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو فریق بنایا۔ درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ سنتھیا رچی نے 9 سال بعد اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں درخواست گزار کے خلاف اس اضافے کے ساتھ فوجداری مقدمہ درج کرنے کی شکایت کہ پی پی پی کارکنان انہیں ہراساں کررہے تھے۔
درخواست میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ہائی کورٹ اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہی کہ شکایت کرنے کا واحد مقصد درخواست گزار کو چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی حیثیت سے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف جھوٹے الزامات پر سنتھیا رچی کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے روک سکیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹ اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہی کہ واقعے سے متعلق کوئی میڈیکو لیگ رپورٹ، کیمیائی تجزیے، ڈی این سے یا کوئی گواہ موجود نہیں، درخواست گزار نے کہا کہ جسٹس آف پیس اندراج مقدمہ کی درخواست کو مسترد کرنے پر حق بجانب تھے۔ درخواست گزار کا یہ بھی کہا تھا کہ ہائی کورٹ اس بات کی تعریف میں بھی ناکام ہوگئی کہ شکایت گزار نے اپنی شکایت 9 سال سے زائد کے طویل عرصے کے تاخیر کے بعد درج کروائی تو اس سے سچائی اور تقدس کیسے منسلک ہوسکتا ہے بالخصوص اس وقت کہ جب درخواست گزار نے بینظیر بھٹو کے خلاف جھوٹے الزامات پر ان(سنتھیا رچی) کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کو سماعت کا مناسب موقع نہیں دیا اور کیس کو نظرِ ثانی کےلیے واپس بھجوادیا۔
خیال رہے کہ امریکی بلاگر سنتھیا رچی کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں لیکن چند ماہ قبل سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ’نامناسب‘ ٹوئٹ کے بعد ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔
پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے حکام کو امریکی بلاگر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم جاری ہوا، انہوں نے اس کارروائی کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم وہ مسترد ہوگئی۔ دوسرا اور سب سے اہم معاملہ سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ اور پی پی پی کے دو دیگر رہنماؤں پر دست درازی کرنے کا الزام عائد کیا جانا تھا۔ مذکورہ الزامات پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمٰن ملک کی جانب سے امریکی بلاگر کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button