روک سکو توروک لو، افغان طالبان کا امریکہ کو پیغام


روک سکو تو روک لو کے نعرے کے مصداق افغان طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے شمالی صوبے قندوز کے اہم ترین ضلع امام صاحب پر قبضہ کرتے ہوئے صوبے کے دارالحکومت کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے جس کے بعد اقوام متحدہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عسکری مہم سے جنگ زدہ افغانستان میں امن عمل میں ہونے والی پیش رفت کے الٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان قندوز کے ضلع امام صاحب میں جنگ شروع ہونے کے بعد پولیس ترجمان امام الدین رحمانی نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اور پولیس ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ صوبائی دارالحکومت سے صرف آدھا کلو میٹر دوری پر ہیں۔ تاہم، وہ شہر میں داخل نہیں ہوئے۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء مکمل ہونے سے پہلے ہی طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں کی ایک لہر چل پڑی ہے جس کی وجہ سے حکومتی فورسز کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورت پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت سے جاری اس عسکری مہم سے جنگ زدہ افغانستان میں سیاست، سلامتی اور امن کے عمل میں ہونے والی پیش رفت کے الٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بعض طالبان جنگجو قندوز کے نواح میں موجود ہیں جس کی وجہ سے مقامی شہری کابل کی جانب سفر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یکم مئی کو امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے عمل کے آغاز سے ہی طالبان کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک درجنوں اضلاع ان کے قبضے میں جا چکے ہیں۔ طالبان کی جانب سے حالیہ کارروائیاں ایسے موقع پر کی جا رہی ہیں جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ طالبان نے قندوز صوبے کے جس ضلعے پر قبضہ کیا ہے وہ پڑوسی ملک تاجکستان کی سرحد سے متصل ہے جو وسطی ایشیا سے رسد کی سپلائی کا اہم راستہ ہے۔ قندوز پولیس ترجمان نے مزید بتایا کہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس نے امام صاحب ضلعے کے دفاع کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ تاہم، اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان سے لڑائی میں دونوں جانب کتنی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے امام صاحب پر قبضہ کر لیا ہے۔ قندوز پولیس ترجمان کے بقول طالبان نے حالیہ جھڑپوں کے دوران دیگر کئی اضلاع سمیت قندوز صوبے کے ضلع دشتِ آرچی پر بھی قبضہ کیا ہے، یہ ضلع امام صاحب سے متصل ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حالیہ چند روز کے دوران طالبان نے تین شمالی صوبوں قندوز، بغلان اور بلخ کے متعدد اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے اپنی ویب سائٹ اور واٹس ایپ گروپوں میں کئی ایسی ویڈیوز جاری کی گئی ہیں جن میں وہ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والے اہلکاروں سے واپس اپنے گھروں میں جانے کا کہا جا رہا ہے جہاں انہیں طالبان کی جانب سے نقد رقم بھی دی جا رہی ہے۔
دوسری جانب طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک بیان میں جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے افغان پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش آئیں اور ان سے اچھا برتاؤ کریں۔ اس سے پہلے افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر ہونے والی تنقید کے بعد فوج کے سربراہ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ داخلہ کو تبدیل کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کی جانب سے علاقوں پر قبضوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور وہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
اسی دوران پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے کہا ہے کہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن روزانہ کی بنیاد پر امریکی فوج کے انخلا کے معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے بقول، انخلا کا عمل اپنی رفتار سے جاری ہے اور اسے ستمبر کے شروع میں مکمل کر لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ستمبر 2021 میں شروع ہونے والا فوجی انخلا کا عمل امریکہ 11 ستمبر 2021 سے پہلے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں صوبائی دارالحکومتوں کے شہر بہت جلد طالبان کے قبضے میں آ سکتے ہیں کیونکہ وہ روز بروز نئے اضلاع پر اپنا کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں۔
افغان حکام کا بھی یہی کہنا ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں طالبان بڑے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور اب وہ اپنے قبضے والے جنوبی علاقوں سے نکل کر مزید خطوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے افغان امور کے اقوام متحدہ کے خصوصی سفارت کار ڈیبورہ لیون نے بھی تسلیم کیا تھا ک مئی 2021 سے اب تک طالبان نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 100 سے بھی زیادہ پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے سکیورٹی کونسل کو بتایا تھا کہ کنٹرول میں لیے گئے یہ تمام اضلاع صوبائی دارالحکومتوں کے آس پاس کے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب افواج کے انخلا کے بعد دارالحکومتوں کو حاصل کرنے کے لیے طالبان خود کو پوزیشن کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی حالیہ پیش رفت اس لیے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ایک تیز ترین فوجی مہم کا نتیجہ ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے اس شدید فوجی مہم کا جاری رہنا ایک اذیت ناک عمل ثابت ہو گا جس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس برس اپریل میں افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کیا تھا جس کے تحت آئندہ گیارہ ستمبر تک تمام امریکی فورسز کو افغانستان سے نکل جانا ہے۔

Related Articles

Back to top button