چھٹی کا دن ہے، گرمیوں کے موسم میں ہلکی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، شام کے وقت لوگ باغ میں چہل قدمی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اوپر دی ہوئی صورتحال تقریباً 20 فیصد آبادی کے لیے شاید سازگار یا خوشگوار نہ ہو۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ ’پولن الرجی‘ میں مبتلا ہیں مثال کے طور پر بہتی ناک، گلے کی خراش اور بھرائی ہوئی آنکھیں، وہ لوگ اپنی چھٹی کے دن گھر سے باہر جانے سے کتراتے ہیں اور گھر کے اندر ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔
بہار کے موسم میں پھولوں کے ذرات جنہیں ہم پولن بھی کہتے ہیں، ہوا میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں، یہ انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں جنہیں صرف مائیکروسکوپ کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ پولن جب حساس لوگوں کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جسم میں مختلف علامات پیدا کرتے ہیں، اسے ’پولن الرجی‘ کہتے ہیں۔
پولن کی مقدار گرم اور خشک دنوں میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ نمی والے دن ان کی مقدار کم ہوتی ہے۔
پولن الرجی کا موسم فروری کے آخری ہفتے سے شروع ہوکر مئی کے پہلے ہفتے تک جاری رہتا ہے۔
ان دنوں میں چونکہ درختوں اور پودوں پر پھول لگ رہے ہوتے ہیں اس وجہ سے ہوا میں پولن کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے جس کے باعث اسپتالوں میں پولن کےمریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔