صحافیوں کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر احتجاج کا منصوبہ


پاکستان کی تمام بڑی صحافتی تنظیموں نے 10 ستمبر کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر عارف علوی کے خطاب کے موقع پر حکومت کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لائے جانے والے کالے قانون کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر بھرپور احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ کپتان حکومت نے ملک میں مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر اپنا آمرانہ کنٹرول مزید مضبوط کرنے کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا پی ایم ڈی اے کے نام سے ایک نیا ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس اتھارٹی کو آزادی اظہار رائے پر مزید قدغن لگانے کی ریاستی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس کو منسوخ کرنے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات، ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماتحت کام کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والی زبیر علی خان کی کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اس اتھارٹی میں سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر بھاری جرمانے اور سزا کی تجویز ہے۔غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جبکہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری بڑی شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے جس میں ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرنے یا این او سی حاصل کرنا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے۔ اس تجویز کو حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
پی ایم ڈی اے کے تحت وفاقی حکومت ریگولیٹر اتھارٹی کو کوئی بھی ہدایت جاری کرسکتا ہے جس پر اتھارٹی من و عن عمل درآمد کرانے کی پابند ہوگی۔ اس اتھارٹی کا سربراہ بھی ایک سرکاری ملازم ہوگا۔اس سے قبل الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ وزارت اطلاعات کے ماتحت تو کام کرتا ہے لیکن اس کی تشکیل اور ممبران آزاد حیثیت میں کام کرتے ہیں۔نئی اتھارٹی کے تحت کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک مدت کے لیے کام کرنے سے روکنے کا اختیار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔اس کے علاوہ اتھارٹی کے تحت ریاست کے سربراہ، مسلح افواج کے سربراہ کے علاوہ قانون ساز اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے مواد نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔
جب سوال کیا گیا کہ میڈیا ڈویلپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے تو وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا کہ پی ایم ڈی اے کا مقصد جعلی خبروں کی روک تھام اور میڈیا ورکرز کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے قیام کا مقصد جعلی خبروں کی نشر و اشاعت روکنا ہے تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کی جائے اور زرد صحافت کی حوصلہ شکنی ممکن ہو۔ فرخ حبیب کے مطابق اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد ملک میں صحافیوں کو روزگار کا تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ میڈیا مالکان کی جانب سے جاری صحافیوں کا مالی استحصال روکا جا سکے، بروقت تنخواہیں دی جائیں اور ملازمت سے برطرف کرنے کا ایک طریقہ کار وضع ہونا چاہئے۔
وزیر مملکت نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جعلی خبر دینے پر صحافیوں اور ادارے پر جرمانے ضرور تجویز کیے گئے ہیں تاہم قید کی سزا کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ ’ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لائسنس جاری کرنے کی تجویز نہیں بلکہ صرف رجسٹریشن کرنے کی تجویز ہے تاکہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر کام کو ریگولیٹر کیا جا سکے اور ورکرز کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا گیا کہ پی ایم ڈی اے کو آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں لے جانے سے پہلے قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث لایا جا رہا ہے اور صحافتی تنظیموں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ بل منظور کروایا جائے گا۔
تاہم عجیب بات یہ ہے کہ حکومت ابھی تک اس مجوزہ بل کا مسودہ سامنے نہیں لا رہی اور اسے خفیہ رکھ رہی ہے جس وجہ سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بل کے حوالے سے اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں میں انتہائی تشویش پائی جا رہی ہے جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں بل پر حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس منسوخ ہو جائیں گے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات ، ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے تحت کام کریں گے۔اس کے نفاذ کے بعد کسی بھی پروگرام کے دوران اینکرز یا میزبان نظریہ پاکستان، ملکی سلامتی، خودمختاری یا سیکیورٹی سے متعلق کسی پراپیگنڈے یا عمل کی تشہیر نہیں کرسکے گا۔

Related Articles

Back to top button