پی ایم سی بغیر کونسل ممبران کے کام کررہا ہے

پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کو ابھی بھی تکنیکی طور پر فعال ہونا باقی ہے تاہم یونیورسٹیز کو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی سی اے ٹی) لینے سے روکنا اور قومی امتحانات بورڈ (این ای بی) کو معطل کرنا جیسے اس کے حالیہ اقدامات نے صحت کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو حیران کردیا ہے۔
اس کے علاوہ پی ایم سی، جس کو پہلے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کہا جاتا تھا، نے اپنی ویب سائٹ پر یہ ذکر کیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر مکمل طور پر فعال ہوجائے گا اور ایم بی بی ایس گریجویٹس کو مکمل لائسنس کی گرانٹ سمیت تمام زیر التوا درخواستوں پر 2 اکتوبر سے کارروائی کا آغاز کردے گا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)، جو ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ہے، نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اس کے کونسل ممبران، جنہوں نے اسے چلانا ہے، ابھی بھی نامزد نہیں ہوئے ہیں تو پی ایم سی نے کیسے فیصلے کرنا شروع کردیے ہیں۔ پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020، 16 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور بعدازاں اس پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کیے تھے۔ ایکٹ کی ایک کاپی کے مطابق، پاکستان میڈیکل کمیشن کے تین کمپوننٹس ہوں گے جن میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (ایم ڈی سی)، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ (این ایم ڈی اے بی) اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی (این ایم اے) شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پی ایم سی ایکٹ 2020 کی شق 18 کے تحت ملک میں میڈیکل یا ڈینٹل کالجز میں داخلے کے خواہاں تمام طلبہ کو 2021 کے بعد سے ایم ڈی سی اے ٹی لازمی دینا ہوگا۔ کہا گیا ہے کہ ‘اتھارٹی کونسل کی جانب سے منظور شدہ تاریخ اور بورڈ کے ذریعہ منظور شدہ معیار کے مطابق سالانہ ایم ڈی سی اے ٹی لے گی، پاکستان میں کسی بھی طالب علم کو میڈیکل یا ڈینٹل ڈگری نہیں دی جائے گی اگر اس نے پاکستان میں میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلے سے قبل ایم ڈی سی اے ٹی پاس نہیں کی ہو اور 2021 کے پروگرام اور اس کے بعد میڈیکل یا ڈینٹل انڈر گریجویٹ میں داخلہ لینے والے تمام طلبہ کےلیے یہ شرط لازمی ہوگی’۔
وزارت قومی صحت سروسز (این ایچ ایس) کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالج داخلے کے لیے کم از کم 50 فیصد ایم ڈی سی اے ٹی ویٹیج دینے کے پابند ہوں گے جبکہ نجی کالجز کو اس قانونی ذمہ داری سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ اس شق کے تحت ہر نجی کالج کو داخلے کے ل اپنی پالیسی تیار کرنے کےلیے آزادانہ اجازت دی گئی ہے جس میں داخلہ کے اضافی ٹیسٹ بھی شامل ہیں۔ ‘لازمی ایم ڈی سی اے ٹی کے بغیر پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز میں داخلے کی سہولت کےلیے پی ایم سی ایکٹ 2020 کی شق 21 کے تحت ایک اور طریقہ کار بھی فراہم کیا گیا ہے جس میں میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں دو سال سے زیادہ کا پروگرام مکمل کرنے والے طلبہ کا پاکستان سے باہر داخلہ لینے والوں کو منتقلی اور داخلہ حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ‘اس طرح کا طالب علم اس کے اگلے سال میں داخلہ حاصل کرنے کا اہل ہوگا تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ آیا ایسے طلبہ کو مذکورہ بالا نشستوں میں داخل کیا جائے گا یا کسی کالج میں خالی نشستوں پر’۔ ماضی میں پی ایم ڈی سی نے ہر میڈیکل اور ڈینٹل کالج کےلیے متعدد نشستیں مختص کی تھیں تاہم نئے ایکٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ ‘ایک اور قابل اعتراض پیشرفت جسے پی ایم سی کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے، یہ ہے کہ کمیشن قومی سطح پر ایم ڈی سی اے ٹی کروائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ امتحان کے شیڈول کا اعلان کمیشن کے ذریعہ 2 اکتوبر کے فورا بعد کیا جائے گا جب کہ ایکٹ کی شق 18 میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پی ایم سی 2021 سے ایم ڈی سی اے ٹی منعقد کرے گا۔
پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہ سن کر حیران ہیں کہ پی ایم سی نے کونسل کی نامزدگی کے بغیر کام کرنا کیسے شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سنٹرلائزڈ انٹری ٹیسٹ پالیسی کو ختم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے والدین کو متعدد کالجز سے پراسپیکٹس خریدنے اور پروسیسنگ فیس ادا کرنے کےلیے ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑیں گے، میں نہیں جانتا کہ کون پی ایم سی کے حوالے سے فیصلے لے رہا ہے، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کمیشن کی وجہ سے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام دیگر تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان سے پی ایم ڈی سی کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے’۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button