فارن فنڈنگ سکروٹنی کمیٹی ڈٹ کر کپتان کے ساتھ کھڑی ہو گئی

تحریک انصاف کے خلاف دائر کردہ فارن فنڈنگ کیس میں اکاونٹس کی اسکروٹنی کرنے والی کمیٹی اپنی جانبداری کا کھلم کھلا مظاہرہ کرتے ہوئے شکایت کنندہ اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کی دستاویزات اور درجن بھر نان ڈیکلیئرڈ بینک اکاؤنٹس تک رسائی کی استدعا مسترد کردی۔ اکبر ایس بابر نے موقف اختیار کیا تھا کہ بطور شکایت کنندہ یہ ان کا حق ہے کہ ان کو پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے دفاع میں جمع کروائی گئی دستاویزات تک رسائی دی جائے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے جواب دے سکیں۔ لیکن شروع سے ہی جانبداری کا مظاہرہ کرنے والی سکروٹنی کمیٹی نے اکبر ایس بابر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی فائل کردہ دستاویزات اس لیے خفیہ رکھی جا رہی ہیں کہ حکمران جماعت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر رکھا ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن کی تشکیل کردہ سکروٹنی کمیٹی نے باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ وہ حکومتی اشاروں پر چل رہی ہے اور آزادانہ کام نہیں کر رہی۔ سکروٹنی کمیٹی کی جانب سے اکبر ایس بابر کو دستاویزات دیے جانے سے صاف انکار کے بعد اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف 6 برس پہلے دائر کیے جانے والے فارن فنڈنگ کیس کو جان بوجھ کر لٹکایا جا رہا ہے تا کہ اس کا فیصلہ نہ ہو سکے۔

اکبر ایس بابر نے دستاویزات تک رسائی سے انکار کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی نے اس کیس میں اپنی جانبداری ثابت کردی ہے اور انہیں انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ درخواست گزار کے وکیل سید احمد حسن شاہ نے سکروٹنی کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کریں گے کیوں کہ شفافیت، قانون اور الیکشن کمیشن کے احکامات پی ٹی آئی کی دستاویزات تک مکمل رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسکروٹنی کمیٹی نے اپنا اجلاس 15 فروری تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے ایک نیوز رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری خزانہ نے اعتراف کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی جماعت کے 4 ملازمین کو پاکستان کے اندر اور باہر اور یو اے ای سے موصول ہونے والے فنڈز اکھٹے کرنے کے لیے ان کے ذاتی اکاؤنٹس استعمال کرنے کا مجاز بنایا تھا۔ انہوں نے کہا وہ بارہا اصل درخواست کا حوالہ دے چکے ہیں جس میں پی ٹی آئی ملازمین کے فرنٹ اکاؤنٹس کا ذکر ہے جنہیں مبینہ طور پر غیر قانونی رقم بالخصوص مشرق وسطیٰ سے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے نقدی کو چیکس کے ذریعے منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

اسکروٹنی کمیٹی کو درخواست پیش کرتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ پی ٹی آئی کے ان چاروں ملازمین کے اکاؤنٹس تک مکمل رسائی کے لیے اسٹیٹ بینک پاکستان کو خط بھیجے تا کہ غیر قانونی فنڈز اکھٹے کرنے کے حجم اور وسعت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مؤکل اسکروٹنی کمیٹی سے پی ٹی آئی ملازمین کے نجی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کی بار بار درخواستیں کر چکے ہیں جنہیں فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر ‘فرنٹ’ اکاؤنٹس کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ تاہم کافی ثبوت فراہم کرنے کے باوجود اسکروٹنی کمیٹی نے اب تک ان اکاؤنٹس کی چھان بین کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ پی ٹی آئی کو درخواست گزار کی جانب سے پارٹی کے 4 ملازمین کئی ذاتی بینک اکاؤنٹس سامنے لانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو خط لکھنے اور مذکورہ نیوز رپورٹ پر جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی۔

دوسری جانب اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور پارلیمانی سیکرٹری ریلوے فرخ حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) فارن فنڈنگ کی بانی ہے۔ فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے چالیس ہزار ڈونرز کا مکمل ریکارڈ الیکشن کمیشن کو پیش کیا ہے، ہم نے سالمیت پاکستان کے خلاف کسی غیر ملکی سے ایک روپیہ نہیں لیا، ہماری تمام فارن فنڈنگ بینکنگ چینل کے ذریعے آئی۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ منی لانڈرنگ، حوالہ، ہنڈی کی بنیاد رکھنے والے نواز شریف ہیں، انہوں نے اپنی لوٹ مار سے اربوں روپے مریم صفدر کو گفٹ کیے جس سے انہوں نے جائیداد خریدیں، ان کے جھوٹ بے نقاب ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب اکبر ایس بابر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کی دستاویزات کو خفیہ رکھنے کے فیصلے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں اور اسے الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دستاویزات کو خفیہ رکھنے سے صرف اسکروٹنی کمیٹی کی ساکھ اور شفافیت مشکوک ہوگی۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے فند اکٹھے کرنے کے لیے ملازمین کے اکاؤنٹس استعمال کرنے کا اعتراف جرم، اس کے میگا بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کے بارے میں ان کے مؤقف کی توثیق کرتا ہے۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التوا ہے جو اس پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا۔ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر ملکی فنڈز میں سے تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے سے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔

بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔ فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔ علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی تھی اور اگست میں الیکشن کمیشن میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جسے ای سی پی نے مسترد کرکے تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اکبر ایس بابر کا موقف ہے کہ سکروٹنی کمیٹی ازادانہ سے کام نہیں کر رہی اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کا پیش کرہ تمام ریکارڈ مجھے نہیں دکھایا جائے گا تو میں کیسے کمیٹی کی کارروائی پر اعتماد کا اظہار کرسکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں فارن فنڈنگ کیس کے شکایت کنندہ کے طور پر قانونی لحاظ سے بھی پی ٹی آئی کے جمع کروائے گے ریکارڈ تک رسائی کا مجاز ہوں لیکن مجھ سے شواہد چھپائے جا رہے ہیں۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی جان بوجھ کر تاخیری حربے آزما رہی یے تاکہ اس اہم ترین کیس کا فیصلہ نہ ہو پائے۔ انکا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین پر مبنی سکروٹنی کمیٹی تحریک انصاف حکومت کے دبائو میں کام کرر ہی ہے اور عین حکومتی ہدایات کے مطابق معاملے کو طور دے کر مسلسل کیس کو الجھا رہی ہے۔اکبر ایس بابر نے کہا کہ جب گریڈ 18 گریڈ 19 یا گریڈ 20 کے سرکاری ملازم ملک کے وزیراعظم کے خلاف کیس کی تحقیقات کریں گے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون کے مطابق وزیراعظم اور ان کی جماعت کے خلاف انصاف ہر مبنی کوئی فیصلہ ہو سکے۔ اکبر ایس بابر کے مطابق یہ کیس الیکشن کمیشن اور سکروٹنی کمیٹی کے پاس آنے کے بعد سے اب تک ڈیڑھ سو سے زائد سماعتیں ہو چکی ہیں۔ اس دوران نہ صرف پی ٹی آئی کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کئے گئے بلکہ غیر تصدیق شدہ اور جعلی دستاویزات جمع کروا کر گلو خلاصی کروانے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی دباو کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی نہ تو انہیں تحریک انصاف کی جانب سے جمع کروائے گئے شواہد اور ثبوتوں کی کاپیاں فراہم کرر ہی ہے اور نہ ہی ممنوعہ فسرن فنڈنگ سے متعلق تفصیلات اور چھپائے گئے 23 بینک اکائونٹس سے متعلق کچھ بتانے پر راضی ہے۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن حکام کو ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button