فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : آئینی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کےخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتےہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتےہوئے کہاکہ 9 مئی کو دن تین بجے سے شام تک 39 جگہوں پر حملہ کیاگیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہوگئی تھی لیکن رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی،ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی،اصغر خان 3 ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی،ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے،جغرافیے کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتاہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہےہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو تو بھی اس پر بات کرنا ضروری ہے،جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنےپر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیاگیا۔

اٹارنی جنرل نےبتایا کہ بغیر پنشن ریٹائر ہونےوالوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل،ایک برگیڈیئر اور لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیاگیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیاکہ کیا فوج نے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہآرمی ایکٹ واضح ہےکہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑےہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنےدی،میرٹ پر بات کرنے سےٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑےگا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنےوالے سوالات کے جواب شاید آپ کےلیے دینا ممکن نہ ہوں،

جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیاکہ ویسے کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونےوالا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیاگیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیاکہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئےہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئےگی تو عدالت کو معلوم ہوجائےگا، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ یہی تو بات ہےکہ آپ جواب نہیں دےسکیں گے بہتر ہےیہ باتیں نہ کریں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں 9 مئی کے میرٹس پر بات نہیں کررہا جو پوچھاگیا اس کا جواب دیا،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ ملک کے مستقبل کےلیے ہم سوال پوچھ رہےہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ ہمیں بھی اپنے پیارے ملک کے مستقبل کی فکر ہے، آرمی ایکٹ میں کتنی بار ترمیم ہوئی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی ایکٹ میں متعدد بار ترمیم ہو چکی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 ویں ترمیم کرلی گئی،آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی،آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایساکیا ہےکہ اس میں آسانی سے ہونےوالی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوجی عدالتوں کی سزاوں کے خلاف اپیلیں دائر ہو چکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کرچکے باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دیں گے، انہوں نے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کےلیے رکھے تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔

دریں اثنا آئینی بینچ نےفوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ محفوظ شدہ فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائےگا،شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اپیل کا حق دینے کےلیے سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آبزرویشن دے،پارلیمنٹ کو قانون سازی کےلیے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے،سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے ۔

بھارت کے اقدامات خطے کے امن کےلیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں : اسحٰق ڈار

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اس فیصلےمیں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی،پارلیمنٹ کو قانون سازی کےلیے 6 ماہ کا وقت دیا گیاتھا۔

Back to top button