باجوڑ آپریشن کی وجہ سے قبائلی عوام نقل مکانی پر مجبور

خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر خوف کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تحریک طالبان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے فیصلے کے بعد عوام نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ مقامی عمائدین اور شدت پسندوں کے درمیان امن جرگے کی ناکامی، علاقے میں 800 کے قریب دہشتگردوں کی موجودگی اور آپریشن کی گھن گرج نے ہزاروں قبائلی خاندانوں کو گھر بار چھوڑ کر پشاور اور دیگر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ماموند کی تین لاکھ سے زائد آبادی میں سے اب تک 40 ہزار سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ قبائلی عوام کی بڑی تعداد کی نقل مکانی نے پشاور کے رہائشی، معاشی اور سماجی توازن کوہلا کر رکھ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق موجودہ صورتحال میں باجوڑ، کرم، ہنگو اور دیگر قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے درجنوں خاندان روزانہ کی بنیاد پر پشاور منتقل ہورہے ہیں اور ان میں زیادہ تر خاندان کرائے کے مکان حاصل کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ نے مستقل طور پر رہائش کے لئے جائیداد خریدنے اور تیار مکانات کی خریداری کے لئے پراپرٹی ڈیلرز سے بھی رابطے کر لئے ہیں۔
ذرائع کے بقول علاقے میں فوجی آپریشن کی تیاری کے دوران ہی ہزاروں خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو گئے۔ بہت سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر سرکاری کیمپس میں جا بسے ہیں، جبکہ قبائلی عوام کی ایک بڑی تعداد پشاور پہنچ چکی ہے۔ جس کے بعد پشاور میں گھروں کے کرائے اور پراپرٹی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، کیونکہ افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد خالی ہونے والے مکانات اور دکانوں کو اب قبائلی مہاجرین خریدنا یا کرائے پرلینا شروع کر دیا ہے۔کارخانو مارکیٹ جیسے تجارتی مراکز میں افغان مہاجرین کے چھوڑے گئے گودام اور دکانیں تیزی سے قبائلی باشندے سنبھال رہے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز کے مطابق، پہلے افغان مالکان اپنے گھر، گودام اور کاروبار کم قیمت پر فروخت کرنے کو تیار نہ تھے لیکن اب قبائلی خریداروں کی آمد نے انہیں نئے مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ جس کے بعد پشاور اور اس کے گردونواح میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ذرائع کے مطابق پشاور کے بعض شہری سیکورٹی وجوہات کے باعث کرائے پر مکان دینے سے ہچکچا رہے ہیں جبکہ بعض مکانات افغان مہاجرین سے براہِ راست قبائلی خریداروں کو فروخت کیے جا رہے ہیں، جس سے مارکیٹ میں گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق، قبائلی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے نہ صرف پشاور کے وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے بلکہ شہری اور قبائلی آبادی کے تعلقات میں نئے چیلنج بھی جنم لے سکتے ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس ہجرت کو مربوط منصوبہ بندی کے تحت منظم نہ کیا گیا تو یہ امن و امان اور سماجی ہم آہنگی دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مبصرین کے بقول باجوڑ اور خیبر میں شروع ہونے والا آپریشن محض ایک عسکری کارروائی نہیں، بلکہ یہ ایک انسانی، معاشی اور سماجی بحران کو بھی جنم دے رہا ہے۔ پشاور اس وقت پناہ گزین قبائلیوں کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے، لیکن یہ بوجھ شہر کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ آنے والے مہینے اس بحران میں شدت آنے کا امکان ہے
عمران خان اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کو تیار کیوں نہیں؟
دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں مقامی عمائدین اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ہونے والا امن جرگہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا، جرگے کی جانب سے شدت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے سمیت تین اہم مطالبات پیش کیے گئے، لیکن مسلح گروہ نے انکار کر دیا۔جس کے بعد دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔۔ اعداد و شمار کے مطابق، باجوڑ کی تحصیل ماموند کے دو علاقوں میں تقریباً 300 جبکہ خیبر میں 350 سے زائد شدت پسند سرگرم ہیں، جن میں سے 80 فیصد افغان باشندے ہیں۔ سرکاری تخمینے کے مطابق، اس وقت پورے علاقے میں دہشتگردوں کی تعداد 800 کے قریب ہے۔ تاہم اب سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں موجود دہشتگردوں کے مکمل خاتمے کیلئے جامع حکمت عملی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے جس کے بعد تخریب کاروں کا بچ نکلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
