پاکستان سے واپس پہنچنے والا امریکی سینیٹر یوتھیوں کے دباؤ میں

حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے امریکہ واپس پہنچنے والے کانگریس مین جیک برگمین نے تحریک انصاف کے امریکہ چیپٹر کا دباؤ لیتے ہوئے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے حالانکہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران نہ تو وہ کسی پی ٹی آئی لیڈر سے ملے اور نہ ہی ایسا کوئی مطالبہ کیا۔
پاکستان کا دورہ کر کے واپس جانے والے امریکی کانگریس مین جیک برگمین کے جس بیان کا تحریک انصاف کے بہت سے رہنماؤں کو انتظار تھا، وہ بالآخر جاری کر دیا گیا ہے اگرچہ اس میں کئی روز لگے۔ جیگ برگمین کا تعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے ہے اور اپریل کے وسط میں انھوں نے پاکستانی قیادت بشمول آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھیں۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے لیے جیک برگمین امریکہ سے آنے والی ایک اہم آواز اس لیے سمجھے جاتے تھے کیونکہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی مخالفین کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں پر بات کرتے رہے ہیں۔
پاکستان سے واپس امریکہ پہنچنے کے بعد جیک برگمین نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے دورے، وہاں رہنماؤں اور برادریوں سے روابط قائم کرنے کے بعد میں عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو دہرا رہا ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان شراکت ایک جیسے اقدار جیسے جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی خوشحالی سے مضبوط ہوتی ہے۔ جیک برگمین نے کہا کہ ’آئیے آزادی اور استحکام کے لیے ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے اس وفد میں شامل ارکان کو اس لیے بعض حلقوں کی تنقید کا سامنا تھا کہ وہ ماضی میں عمران کی رہائی کا مطالبہ کر چکے تھے تاہم پاکستان کے دورے کے دوران ان کی جانب سے ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا۔
پاکستان کے اندر اور باہر تحریک انصاف کی سیاسی قیادت نے سوشل میڈیا پر جیک برگمین کے بیان پر ردعمل تو دیا ہے مگر ان کے تبصرے ایک جیسے نہیں، حالانکہ پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد برگمین نے پہلی بار عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا ہے۔
احتساب اور داخلی امور پر ماضی میں عمران خان کے مشیر رہنے والے مرزا شہزاد اکبر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ بیرون ملک پاکستانی نژاد افراد کو برگمین کی آرمی چیف سمیت عسکری قیادت سے ملاقاتوں پر تشویش ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے تاثر معنی رکھتا ہے۔ جب امریکی کانگریس مین باوردی فوجی اہلکاروں سے روابط قائم کرتے ہیں، نہ کہ مختلف جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ، تو اس سے غیر ارادی طور پر پاکستانیوں میں خیال پنپتا ہے کہ امریکہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ہے۔‘
سابق صدر پی ٹی آئی یو ایس اے سجاد برکی نے یہ اعتراض اٹھایا کہ امریکی کانگریس کے وفد نے تحریک انصاف کی منتخب قیادت سے ملاقاتیں نہیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی برادری آپ کے دورے پر شدید مایوس ہے اور الیکشن کے وقت وہ اسے یاد رکھے گی۔ کاش آپ میں اتنی جرات ہوتی کہ آپ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ تب کرتے جب یہ معنی رکھتا تھا۔‘
اسی طرح پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے صحافی معید پیرزادہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آیا برگمین یہی بات نجی طور پر اپنے پاکستانی میزبانوں سے کرنے میں کامیاب رہے تھے۔بعض سوشل میڈیا صارفین نے برگمین سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کی حمایت کریں۔ مگر پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں نے برگمین کی حمایت بھی کی ہے۔ امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے اپنے بیان میں اس اعتراض کی مخالفت کی ہے کہ برگمین نے ’اسلام آباد میں عاصم منیر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کیوں یہی بات نہیں کہی؟‘ ان کا کہنا تھا کہ برگمین نے پاکستان سے واپس آ کر انصاف کے اور جمہوریت کے حق میں، ٹویٹ کیا۔
عمران خان کے سابق مشیر زلفی بخاری نے برگمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں امید تھی آپ دورے کے دوران اپنی آواز اٹھائیں گے لیکن ہم مخصوص پروٹوکولز اور رکاوٹیں سمجھتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ نے اس جبری طور پر لائی گئی حکومت کی اصلیت دیکھ لی۔‘
تحریک انصاف والے اس حوالے سے بھی نالاں ہیں کہ امریکی کانگریس مین کا وفد اڈیالہ جیل میں عمران خان سے نہیں مل پایا۔ تاہم اس کے جواب میں شہباز گِل نے یہ پیغام دیا کہ ’مجھے کچھ لوگوں کے جذبات کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک کانگریس مین پاکستان میں جنرل عاصم منیر اور ان کے ساتھیوں کی پوری بات سن کر واپس آ کر فری عمران خان کی ٹویٹ کرتا ہے۔ ہم شکریہ کی بجائے اس پر حملہ آور ہیں کہ خان کو کیوں نہیں ملے۔‘ انکا کہنا تھا کہ ’کانگریس مین کی پوزیشن ایک قانون ساز کی ہے۔ وہ دوسرے ملک میں کیا جیل توڑ کے خان صاحب سے مل لیتا؟ اس کا کام کوشش تھی جو اس نے کی اور جتنی کی اس پر ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘ انھوں نے برگمین کے دفاع میں کہا کہ ’ڈپلومیسی محلے کی عورتوں کی لڑائی نہیں ہے کہ الجھتے رہیں۔ اس میں جو مل جائے وہ لے لو جو نہ ملے اس کی کوشش جاری رکھو۔‘
نئی نہروں کے منصوبے نے سندھ میں PPP کی ساکھ کیسے خراب کی ؟
خیال رہے کہ برگمین کی سربراہی میں وفد نے رواں ماہ فوجی و سیاسی قیادت کے علاوہ پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام سے بھی ملاقات کی تھی۔ پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس ملاقات کے دوران پاکستان اور امریکہ نے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیتی تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔‘