میو ہسپتال میں مسائل کا ذمہ دار معطل شدہ ڈاکٹر تھا یا مریم نواز ؟

وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے اپنے اچانک دورے کے دوران میو ہسپتال لاہور میں بد انتظامی پر ہاسپٹل کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کو معطل کرتے ہوئے جو ’فوری انصاف‘ فراہم کیا تھا اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ دو روز بعد ہی اسی ہسپتال میں ایک انجکشن کے غلط استعمال سے دو مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میو ہسپتال میں اصل مسئلہ فنڈز کی عدم فراہمی اور دوائیوں کی عدم دستیابی کا تھا جو کہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، نہ کہ میڈیکل سپرٹینڈنٹ کی، جس پر سارا نزلہ گرایا گیا۔
اس معاملے میں سبق یہ ہے کہ اگر نظام کی درستی معطلیوں سے ہو سکتی تو کب کی ہو چکی ہوتی۔ دنیا کے جن مہنگے اور عالیشان ہسپتالوں میں حکم ران طبقہ علاج کروانے جاتا ہے وہاں کبھی کوئی ایم ایس معطل نہیں کیا گیا، وجہ یہ ہے کہ وہ ہسپتال کوئی پروفیسر یا بیوروکریٹ نہیں چلاتا، بلکہ ہیلتھ مینجمنٹ ماہرین چلاتے ہیں۔ لہذا مریم سے گزارش ہے کہ شارٹ کٹ مت ڈھونڈیں، بلکہ نظام بدلنے کی منصوبہ بندی کریں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اگر سوکھے ہوئے راوی کے کنارے کوئی کتا پیاس سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ صوبے کا وزیرِ اعلیٰ، لاہور کا ناظم، علاقے کے منتخب نمائندے یا محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات؟ پیاسے کتّے کی مثال صرف اسلئے دی گئی ہے کہ اسلامی تاریخ میں یہ فقرہ معروف ہے اور اسکا حوالہ سربراہِ حکومت کی کڑی ذمہ داریوں پر دال سمجھا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں اس جملے کا ایک ہی معنیٰ ہے، یعنی مقننہ جان کی حرمت کے ضمن میں موثر قانون سازی کرے گی، انتظامیہ کا سربراہ وہ قانون یک سُوئی سے نافذ کرے گا جس میں کوئی جان ناحق ضائع نہ ہو گی، وہ مستعد عمال مقرر کرے گا جو صبح شام جاں فشانی سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے، اور عدلیہ غیر ذمہ دار منصب داروں کو ان کی فرض ناشناسی کی سزا دے گی۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ لکھنے میں تو یہ بات بہت سیدھی اور سادی لگ رہی ہے، مگر ہے نہیں۔ قوموں نے خون تُھوک کر یہ نظام بنائے ہیں، اس میں دہائیاں صرف ہوتی ہیں، پوری قوم ایک متفقہ منزل طے کرتی ہے اورتن دہی سے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اُٹھاتی ہوئی جادہ طے کرتی چلی جاتی ہے۔ ’راتوں رات‘ کوئی ویڈیو کلِپ تو وائرل ہو سکتا ہے مگر مستحکم اجتماعی نظامِ فلاحِ عامہ وجود میں نہیں آ سکتا، ’راتوں رات‘ پولیس کا، تعلیم کا یا صحت کا نظام پٹڑی پر نہیں چڑھ سکتا، اس کی کوئی مثال دنیا کے کسی خطے، تاریخ کے کسی دور سے فراہم نہیں کی جا سکتی۔
یاد رہے کہ حال ہی میں وزیرِ اعلیٰ مریم نواز میو ہسپتال کے طے شدہ دورے پر گئیں تو مریضوں نے جائز شکایات کے انبار لگا دیے، وزیرِ اعلیٰ ہسپتال انتظامیہ پر انتہائی برہم ہو گئیں، اس عالمِ برہمی میں انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو موقعے پر کیا ’’ٹیکا‘‘ لگایا اُس کا احوال ایک وائرل ویڈیو کلِپ میں دیکھا جا سکتا ہے جو وزیرِ اعلیٰ کی ٹیم کی اہم رکن حنا پرویز بٹ نے سوشل میڈیا پر فخریہ جاری کیا تھا۔ چیف منسٹر خفگی سے ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر فیصل مسعود سے کہہ رہی ہیں کہ’’آپ کو تو کچھ پتا نہیں….آپ کو کس نے رکھا ہوا ہے یہاں….! اس شخص کو تو فوری نکال دینا چاہیے۔ اس کے بعد مریم نواز ڈاکٹر موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی آمیز انداز میں کہتی نظر آتی ہیں کہ، "شکر کرو کہ میں تمہیں گرفتار نہیں کروا رہی۔‘‘۔
حماد غزنوی سوال کرتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ کے اس ردِ عمل کی کیا تشریح کی جائے؟ یہ بے یارومددگار عوام کی پریشانی پر ایک دردِ دل رکھنے والے حاکم کی فرسٹریشن کا اظہار ہے؟ یا دوسرے ہسپتالوں کے منتظمین کو ایک سخت پیغام ہے یا ان کے ناقدین کے بہ قول فقط میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈا ہے؟ ہم ماضی میں بھی کئی ایسی معطلیاں دیکھ چکے ہیں، مگر ان کے ثمرات اب تک ہماری نظر سے اوجھل ہیں۔ موقعے پر کسی ’افسر‘ کو معطل کرنا ایک وزیرِ اعلیٰ کیلئے غالباً سہل ترین کام ہے جو عثمان بزدار بھی کر لیتے تھے، یہ غصے کا اظہار تو سمجھا جا سکتا ہے، مسائل کی سنجیدگی سے بیخ کنی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ ’’آپ کو کس نے رکھا ہوا ہے یہاں‘‘ تو اس کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ ’’میڈم چیف منسٹر صاحبہ، مجھے یہاں آپ نے رکھا ہوا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ یہ میو ہسپتال کے ایم ایس کی بات ہو رہی ہے، اور میو ہسپتال جلال پور پیروالا میں واقع نہیں ہے، یہ لاہور کا بلکہ پنجاب کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا سرکاری ہسپتال ہے، لہٰذا اس کے ایم ایس کی تعیناتی وزیرِ اعلیٰ کے علم میں ہونا چاہیے، فرض کیا کہ مریم نواز کو نہیں معلوم کہ ان کی ناک کے نیچے ان سے چُھپ کر ان کے آبائی شہر اور ان کے سیاست کے گڑھ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کا ایم ایس کون بنا دیا گیا ہے تو پھر ان کے لاہوری وزیرِ صحت کو تو پتا ہونا چاہیے کہ ایم ایس کو کس نے رکھا ہوا ہے، اور اگر انہیں بھی نہیں معلوم تو کیا سیکرٹری صحت کو بھی نہیں معلوم؟ مطلب یہ کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ایم ایس کو کس نے رکھا ہوا ہے۔
اب ذرا مختصر تعارف معطل شدہ ایم ایس ڈاکٹر فیصل مسعود کا بھی ہو جائے، وہ کنگ ایڈورڈ ہسپتال کے آرتھوپیڈک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، اور اپنے شعبے کا ایک محترم نام ہیں جن پر وزیرِ اعلیٰ صاحبہ نے یہ مہربانی فرمائی کہ ان کو گرفتار نہیں کروایا۔ ویسے مریم نواز کی اس دھمکی سے بدنام زمانہ جسٹس ثاقب نثار کا شرفاء کی طرف اہانت آمیز رویہ یاد آ گیا۔ یاد رہے کہ میو ہسپتال کے پاس مریضوں کو فراہم کرنے کیلئے مفت دوائیاں نہیں ہیں، ہسپتال کے پاس فنڈ نہیں ہیں، ہسپتال کے ذمے ساڑھے تین ارب کے واجبات زیرِ التواء ہیں، ادویہ فراہم کرنے والی کمپنیاں مزید ادھار دینے پر تیار نہیں، وزیر صاحب بھی جانتے ہیں اور سیکرٹری صاحب کو بھی یہ ساری صورتِ حال معلوم ہے، لیکن معطل میڈیکل سپرٹینڈنٹ کو کر دیا جاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم ایس ڈاکٹر فیصل مسعود نے اپنی معطلی سے 15 روز پہلے میو ہسپتال کی حالت زار پر استعفیٰ لکھ کر حکومت کو بھجوا دیا تھا۔ اس معطلی کے بعد حکومت پنجاب میو ہسپتال کو ادویات کی فراہمی کے لیے 34 کروڑ روپے جاری کر کے تصدیق کر دیتی ہے کہ اصل مسئلہ فنڈز کی عدم فراہمی کا تھا جس کی ذمہ دار خود مریم نواز کی اپنی حکومت تھی نہ کہ ڈاکٹر فیصل مسعود جنہیں معطل کر دیا گیا۔
کیا ٹرین ہائی جیکنگ سے بلوچ قوم پرست اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گے؟
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ بہرحال وزیرِ اعلیٰ کے اس ’فوری انصاف‘ کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ دو دن بعد ہی میو ہسپتال میں انجکشن کے غلط استعمال سے دو مریض فوت ہو گئے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اگر نظام کی درستی معطلیوں سے ہو سکتی تو کب کی ہو چکی ہوتی۔ چیف منسٹر صاحبہ کے لیے مفت مشورہ یہ ہے کہ شارٹ کٹ مت ڈھونڈیں، بلکہ نظام بدلیں…اوکھے پینڈے، لمیاں نے راہواں عشق دیاں۔