پی ٹی آئی کے بانی سے سرپرست بننے والے عمران اب کیا چاہتے ہیں؟

اڈیالہ جیل سے نکلنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے خود کو پارٹی کا پیٹرن ان چیف یا سر پرست اعلیٰ بناتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا فیصلہ کرتے ہوئے اس مرتبہ تحریک کی قیادت خود کرنے کا عجیب و غریب اعلان کر ڈالا ہے۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے لیے اپنے کپتان کے دونوں اعلان حیران کن ہیں کیونکہ نہ تو وہ یہ سمجھ پا رہے ہیں کہ عمران خان نے خود کو بانی سے پیٹرن ان چیف کیوں بنایا ہے اور نہ ہی اس سوال کا جواب مل رہا ہے کہ وہ جیل سے احتجاجی تحریک کی قیادت کیسے کر پائیں گے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار ان عمرانی اعلانات کی جو تشریح کی ہے اسکے مطابق پارٹی کا پیٹرن ان چیف بننے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کو سائڈ لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیل سے احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کے اعلان کی تشریح یہ کی جا رہی ہے کہ اس مرتبہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور کو احتجاج کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں سونپی جائے گی چونکہ وہ ماضی میں دو مرتبہ ناکام ہو چکے ہیں۔
عمران خان نے ایکس پر ایک پیغام میں پاکستان کو درپیش مسائل کی درست نشاندہی تو کی ہے لیکن اس کے ساتھ ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہیں قومی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انکے مطابق وہ صرف اسی صورت تعاون کریں گے جب اسٹیبلشمنٹ ان سے بات کرے اور ان کے سیاسی مطالبے مانے جائیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کا یہ رویہ انفرادی اور گروہی مفاد کو قومی و ملکی مفاد پر ترجیح دینے کا اظہار ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے لیے یہ ماننا مشکل ہو گا لیکن عمران سمیت پی ٹی آئی سے وابستہ ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ ملک کو درپیش مسائل کا حل صرف تحریک انصاف ہی پیش کر سکتی ہے۔ یہ تصور اگر کسی سیاسی تنظیم کے حوالے سے پیش کیا جاتا تب بھی قابل فہم ہو سکتا تھا لیکن مسائل کے ’واحد حل‘ کے طور پر صرف ایک شخص کو پیش کیا جا رہا ہے اور اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر عمران خان شامل نہیں ہوں گے تو یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اپنے ساڑھے تین برس کے اقتدار کے دوران وہ ایک ناکام حکمران ثابت ہوئے تھے جن کی حکومت نے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ کیا تھا۔ ویسے بھی اپنی ذات کے گنبد میں بند ہو کر اپنی ہی فائدے کا سوچنے والے عمران خان کی سوچ سراسر غیر جمہوری ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کے تازہ بیان نے اس رویہ پر حتمی مہر ثبت کردی ہے۔
سیاعی مبصرین کے مطابق جب کوئی سیاسی لیڈر انانیت کی ایک ایسی سطح پر پہنچ چکا ہو کہ اسے خود اپنی ذات سے آگے کچھ دکھائی نہ دیتا ہو تو اس سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ حالات کو پرکھنے اور متوازن رائے رکھنے والے سب عناصر یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کو درپیش مسائل کی موجودہ صورت حال میں سب سیاسی عناصر کو مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ عام طور پر الزامات اور شکوک و شبہات کے باوجود سیاسی لیڈر بات چیت اور مفاہمت کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔
تاہم عمران اور ان کے حامی ایک ایسا سیاسی تصور پیش کر رہے ہیں جس میں صرف فوج سے ہی بات ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے خواہ کیسے ہی دلائل لائے جائیں لیکن کوئی بھی سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی جو انتخابی سیاست اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، وہ کسی غیر آئینی طریقے کے بارے میں یوں کھل کر مطالبہ نہیں کر سکتی۔ تحریک انصاف کا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ اسے گزشتہ سال فروری میں ہونے والے انتخابات میں ہرایا گیا تھا۔ البتہ وہ اپنا یہ موقف کسی پلیٹ فارم پر ثابت نہیں کر سکی۔ پاکستان جیسے ملک میں انتخابات میں بدعنوانی و دھاندلی کے ہزار راستے موجود رہتے ہیں۔ اس بارے میں الزامات بھی لگائے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد مل جل کر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔ 2018 کے الیکشن نتائج کے بعد بھی تب کی اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا لیکن وقت گزرنے کیساتھ نتائج کو قبول کر لیا تاکہ ملک آگے بڑھ سکے، لیکن ضد کے مارے عمران ایک ایسی نئی ’جمہوری‘ سوچ پیش کر رہے ہیں جس کا راستہ بیلٹ بکس کی بجائے جی ایچ کیو سے ہو کر گزرتا ہے۔
سینیئر صحافی اور یوٹیوبر عمران شفقت کے مطابق خان صاحب کو فوج کے سیاسی کردار پر کوئی اعتراض نہیں، ان کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو نکال کر انہیں اقتدار میں لے آئے، چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ آرمی چیف انہیں ملنے کی دعوت دیں، وہ ان کے سامنے اپنی شکایات و مطالبے پیش کریں جس کے بعد آرمی چیف ایک حکم کے ذریعے منتخب حکومت کو گھر بھیج دیں اور عمران کو عزت و احتشام سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچا دیا جائے۔ لیکن یہ ایک دیوانے کے خواب سے ذیادہ کچھ نہیں ہے۔
عمران شفقت کے مطابق اگر عمران کی اس خواہش کے عملی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جائے تب بھی موصوف کو یہ ضرور جواب دینا چاہیے کہ اگر آرمی چیف ہی ملک کے سیاسی انتظام بارے حکم صادر کرے گا تو پھر وہ خود الیکشن اور اس میں کامیابی، عوامی مقبولیت، انصاف اور قانون کی عمل داری کا ذکر کس منہ سے کرتے ہیں؟ عمران خان اور تحریک انصاف کا رویہ تو یہ بتاتا ہے کہ انہیں وہی انتظام واپس چاہیے جس کے تحت 2018 میں تحریک انصاف کو بڑی پارٹی بنوا کر جتوایا گیا تھا اور پھر پارلیمنٹ سے عمران کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا۔
یہ دراصل کسی غیر فوجی دور حکومت میں ملکی سیاست پر فوجی اثر و رسوخ کی بدترین مثال تھی۔ لیکن عمران خان اسے ملکی سیاسی تاریخ کا سنہری وقوعہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی طرح تاریخ کا پہیہ گھما کر 2018 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگر اسی اصول کو درست مان لیا جائے تو جس قوت کو فیصلے کرنے کا اختیار ہو گا، وہ اسے استعمال کرنے کے لیے عمران خان کی بات ہی کیوں مانے گی؟ کیا صرف اس لیے کیوں کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں؟ لیکن 2024 کے انتخابات میں تو یہ بات ثابت نہیں ہو سکی اور نہ ہی کسی عوامی احتجاج کی صورت میں عمران کی تحریک انصاف خود کو کوئی انقلاب برپا کرنے کے قابل ثابت کر سکی ہے۔
جھوٹا بھارتی میڈیا ورلڈ رینکنگ میں پاکستان سے بہتر کیوں قرار پایا ؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 26 نومبر کو اسلام آباد کے دھرنے سے جس طرح بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور جوتیاں اٹھا کر فرار ہوئے اسکے بعد تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو چکی ہے اور وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی اجتماع دکھا کر بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی۔ اس صورتحال میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو شاید عمران خان کے حق حکمرانی پر قائل کیا جا سکے لیکن فوج یا اس کا سربراہ کیوں یہ بات مانے گا؟
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب عمران خان فوج کو ملک کی اہم ترین طاقت تسلیم کر کے اس سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں لیکن دوسری جانب اسے دھمکیوں سے دباؤ میں بھی لانا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ میں بھارت کو ناکوں چنے چبوانے والے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ایسی بلیک میلنگ میں کبھی نہیں آئیں گے۔