عمران خفیہ مذاکرات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے کیا منوانا چاہتے ہیں ؟

تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی رخصتی کا ذمہ دار قرار دے کر اس پر کڑی تنقید کرنے والے عمران خان نے ایک مرتبہ پھر یوٹرن لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے انکے دروازے آج بھی کھلے ہیں۔ عمران خان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اعظم سواتی کو فوجی قیادت سے بات چیت شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
منگل کو اڈیالہ جیل میں پارٹی رہنماؤں اور وکلاء کے ساتھ بات چیت میں عمران خان نے واضح کیا کہ وہ صرف اور صرف موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کے لیے وہ اپنی پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی ذمہ داری لگا چکے ہیں۔ انکا دعوی تھا کہ انکے ایما پر فوجی قیادت سے رابطوں کی کوشش ان کے خلاف دائر کیسز کے حوالے سے نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف پاکستان کی خاطر ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، عمران خان نے ملاقات کیلئے آنے والوں کو بتایا کہ انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بند نہیں کیا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی نے موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت ختم کر دی ہے کیونکہ وہ ایک غیر قانونی حکومت ہے جس کے پاس اصل اختیارات نہیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین سے ملاقات کرنے والوں میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی، سینیٹر علی ظفر اور وکلاء ظہیر عباس، مبشر اعوان اور علی عمران شامل تھے۔ ملاقات کے دوران سینیٹر علی ظفر نے اعظم سواتی کے حالیہ ویڈیو بیان پر عمران خان سے رہنمائی مانگی۔ یاد رہے کہ اس ویڈیو پیغام میں اعظم سواتی نے انکشاف کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے انہیں بات چیت کی نوعیت خفیہ رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی ہدایت کی تھی۔ اعظم سواتی نے مزید کہا تھا کہ اگرچہ عمران خان عوامی سطح پر عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن پس پردہ مذاکرات کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم عمران خان کا موقف ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا مقصد کوئی ذاتی مفاد یا قانونی نرمی حاصل کرنا نہیں۔ عمران کا کہنا تھا کہ ’’یہ پاکستان، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عوام کے مینڈیٹ کے احترام کے بارے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ عدالت میں اپنی قانونی لڑائی لڑنے کیلئے پرعزم ہیں اور کسی بیک ڈور ریلیف کی خواہش نہیں۔
کیا عمران کی پاکستان پر امریکی پابندیوں کی خواہش پوری ہو گی ؟
تاہم تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا بنیادی مقصد ہی عمران خان کو جیل سے نکالنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل میں بھی تب ہی ڈیڈ لاک آیا تھا جب پی ٹی ائی کی مذاکراتی کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ عمران کی رہائی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ 26 نومبر کی رات بھی اسلام آباد پر دعوی بولنے والے مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ اس حوالے سے مظاہرین کی قیادت کرنے والی بشری بی بی نے علی امین گنڈاپور کے ذریعے وزیر داخلہ محسن نقوی کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ عمران خان کو رہا کر کے ڈی چوک میں جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد وہ جلوس کے ساتھ پشاور روانہ ہو جائیں گے۔ تاہم حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ عمران خان ایک سزا یافتہ مجرم ہیں جن کی رہائی کا فیصلہ ملکی قانون کے مطابق عدالتوں نے کرنا ہے اور یہ حکومت کا اختیار نہیں۔