پرویز خٹک کو کابینہ میں شامل کر کے حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کو وفاقی کابینہ میں بطور اپنا مشیر تعینات کرنے کا بنیادی مقصد تحریک انصاف اور علی امین گنڈا پور پر دباو ڈالنا ہے۔ اس سے پہلے الیکشن 2024 میں شکست کے بعد پرویز خٹک نے تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کی سربراہی سے استعفی دے کر سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تھا۔
کچھ لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پرویز خٹک تو وزیر اعلی کے علاوہ وزیر دفاع بھی رہے ہیں لہذا انہیں وزیر اعظم کا مشیر بننے کی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور پرویز خٹک دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی لہذا دونوں نے ہی سمجھوتہ کیا۔ دراصل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خیبر پختون خواہ میں وزیراعلی علی امین گنڈاپور کا کوئی قدآور سیاسی مخالف چاہیے تھا لہذا پرویز خٹک کا انتخاب کیا گیا، انہیں وزیر کی بجائے مشیر بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پچھلے انتخابات میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے لہذا کابینہ میں غیر منتخب شخص کو وزیر کا عہدہ نہیں مل سکتا تھا۔
پشاور کے سینئیر صحافی محمود جان بابر کے مطابق پرویز خٹک شاید مسلم لیگ ن کا انتخاب نہ ہوں، لیکن ان کی پسند ضرور ہوں گے، جو عمران خان اور علی امین گنڈاپور کو پسند نہیں کرتے۔ انکا کہنا تھا کہ طاقت ور فیصلہ سازوں کو کے پی میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو پی ٹی آئی کے ریاست مخالف بیانیے کو دبانے اور ان کو جواب دینا جانتے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہوں نے بطور وزیر اعلی اپنے دور میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کیے اور ان کا مقابلہ علی امین گنڈا پور بھی نہیں کر پائے۔ پرویز خٹک کے پاس کہنے کو باتیں بھی ہیں اور لوگ ان پر یقین بھی کرتے ہیں لہٰذا انہیں کابینہ کا حصہ بنا کر تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا پرویز خٹک کو کابینہ میں شامل کرنے اور صوبائی قیادت کو نظر انداز کرنے سے مسلم لیگ ن کو صوبے میں کوئی سیاسی نقصان ہو گا، تو سینئیر صحافی محمود جان بابر نے کہا کہ ’میرے خیال میں نون لیگ کی سیاست پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق: ’مسلم لیگ کے نوشہرہ سے منتخب رکن کے پی اسمبلی اختیار ولی کو ان کی پارٹی کسی اور طریقے سے خوش کر دے گی تاکہ وہ پرویز خٹک کی بطور مشیر وزیر اعظم تقرری کو ہضم کر لیں۔ پرویز خٹک کی بطور مشیر تقرری پر سینیئر صحافی محمود جان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے کارکنان عمران خان کے علاوہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتے لہٰذا پرویز خٹک کچھ بھی بولیں، پی ٹی آئی کے حامی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘
ارشد عزیز ملک پشاور میں روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، انہوں نے بتایا کہ فروری 2024 کے انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک دل برداشتہ ہو گئے تھے۔ انتخابات سے قبل پرویز خٹک خود ہمیں بتاتے تھے کہ وہ اگلے وزیراعلیٰ ہوں گے اور انتخابات جیت جائیں گے، لیکن نتیجہ کچھ اور آ گیا۔‘ ارشد عزیز ملک نے پرویز خٹک کی شمولیت سے مسلم لیگ ن پر پڑنے والے اثر کے بارے میں بتایا کہ ’اس سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہو گا اور اس کی وجہ پرویز خٹک گروپ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’پرویز خٹک کے ساتھ جانے والے پی ٹی آئی کے کارکنان ان کے وفادار ہیں، ابھی انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت تو اختیار نہیں کی لیکن مستقبل میں وہ مسلم لیگ کا اپنا ایک گروپ بنا سکتے ہیں، جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا۔‘ ارشد نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ ’خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ کے پاس امیر مقام کے علاوہ کوئی تگڑا بندہ نہیں ہے، جو بول سکے اور کسی کو جواب دے سکے، پرویز خٹک اب وہ خلا پر کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ: ’پرویز خٹک اگر صوبائی معاملات پر کچھ بولیں گے تو ان کی بات میں وزن ہو گا اور میڈیا بھی ان کو سنجیدہ لے گا، لہٰذا پرویز خٹک کی شمولیت مسلم لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے فائدے کا سودا ہے۔‘ یاد رہے کہ 2024 کے انتخابات سے پہلے پرویز خٹک اور عمران خان کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے تھے لہذا انہوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ان کی جماعت میں شامل ہو گئے۔
سرگودھا میں ائیرفورس کے جہاز نے اچانک اپنا فیول ٹینک کیوں گرایا ؟
8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں پرویز خٹک نے قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے لیے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ انہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے عمران خٹک نوشہرہ کی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، لیکن دونوں ہی خٹک یہ الیکشن ہار گئے۔
فروری 2024 کے انتخابات میں پرویز خٹک کی جماعت نے قومی اسمبلی کے 45 میں سے 17 حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے 115 حلقوں میں سے 73 پر اپنے امیدوار کھڑے کیے لیکن صرف صوبائی اسمبلی کے دو امیدوار کامیاب ہوئے۔ الیکشن 2024 کے بعد پرویز خٹک نے اپنی جماعت کی سربراہی سے استعفیٰ دے کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وزیراعظم کے مشیر بن کر پرویز خٹک نے بظاہر خیبر پختون خواہ کی سیاست میں دوبارہ سے سرگرم عمل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔