کرپٹو کرنسی کیا ہوتی ہے اور کرپٹو بزنس کیسے کیا جاتا ہے ؟

حکومت پاکستان کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے بزنس کو فروغ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کے جانے کے باوجود سٹیٹ بینک نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانیوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ کرپٹو کرنسی کیا ہے اور یہ بزنس کیسے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی صورتِ حال کافی دلچسپ اور کنفیوزنگ ہے، حالیہ ہفتوں میں کرپٹو بزنس کو ہنگامی بنیادوں پر فروغ دینے کا اعلان کرنے والی حکومت پاکستان کو جواب دیتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان میں کرپٹو بزنس بدستور غیر قانونی ہے، اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف ایک کرپٹو کونسل بنانے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے سربراہ بلال بن ثاقب ایک حالیہ تقریر میں اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن کو قومی ذخائر کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کرپٹو کے لیے الگ سے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔
لیکن غیر قانونی ہونے کے باوجود بہت سارے پاکستانی کرپٹو کرنسی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ بائنینس Binance جیسی ویب سائٹس اور ٹیلی گرام کا استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ 22 مئی 2010 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک شخص نے 40 ڈالر کے دو پیزے دس ہزار بٹ کوائن bit coin ادا کر کے خریدے، یعنی فی ڈھائی سو بٹ کوائن فی ڈالر۔ روپوں میں سمجھ لیں کہ تقریباً ایک بٹ کوائن ایک روپے کا تھا۔ آج بٹ کوائن کی قیمت دیکھیں تو سر چکرا جاتا ہے۔ آج ایک بٹ کوائن دو کروڑ 96 لاکھ روپے کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ 2010 میں آپ نے ایک روپے کا ایک بٹ کوائن خریدا ہوتا تو آج آپ تقریباً تین کروڑ کے مالک ہوتے، یعنی بٹ کوائن کی قیمت میں تین کروڑ گنا کا اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ سر کو چکرا دینے والا عمل اتنا پراسرار ہے کہ 15 سال بعد مسلسل خبروں میں رہنے کے باوجود شاید سو میں سے ایک آدھ شخص ہی اچھی طرح سے یہ جانتا ہو گا کہ کرپٹو کرنسی اصل میں کام کیسے کرتی ہے اور اس کے پیچھے موجود بلاک چین ٹیکنالوجی کیا ہے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ آگے چل کر کرپٹو اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گی۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کرپٹو کرنسی ہے کیا۔ روپیہ، ڈالر، ریال اور دوسری کرنسیوں کی ڈیجیٹل شکلیں موجود ہوتی ہیں، جیسے آن لائن ٹرانسفر کی صورت میں، لیکن آپ انہیں نوٹوں کی شکل میں نکلوا بھی سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کرپٹو کرنسی مکمل طور پر ڈیجیٹل کرنسی ہے، یعنی ایسی رقم جو صرف انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے اور اسکے کوئی پرنٹ شدہ نوٹ یا سکے نہیں ہوتے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ روپیہ ڈالر اور ریال کو مختلف ملک کنٹرول کرتے ہیں اور اپنی ضمانت سے اسے جاری کرتے ہیں، لیکن کرپٹو کو کوئی بینک یا کوئی حکومت کنٹرول نہیں کرتی، نہ اس کی کوئی سرکاری ضمانت ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر کرپٹو چلتی کیسے ہے؟ کرپٹو کرنسی ایک خاص قسم کی ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہے، جسے بلاک چین کہتے ہیں۔ جیسے بینکوں کے کھاتے کا رجسٹر ہوتا ہے، ایسے ہی بلاک چین ایک قسم کا خفیہ ڈیجیٹل ریکارڈ ہے جو صرف آن لائن ہوتا ہے اور اسی میں ہر لین دین یا ٹرانزیکشن کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے۔ یہ ریکارڈ دنیا بھر کے کمپیوٹرز پر موجود ہوتا ہے اور ہر کوئی اسے دیکھ سکتا ہے، لیکن کوئی اس میں ردوبدل یا چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔
مختلف کرپٹو کرنسیاں مختلف بلاک چینز پر بنی ہوتی ہیں۔ بٹ کوائن دراصل بٹ کوائن بلاک چین bit coin block chain پر بنی ہے، جبکہ ایتھر کوائن ether coin ایتھریم بلاک چین etherium block chain پر بنی ہے۔ بنیادی اصول یہی ہے کہ ہر کرپٹو کرنسی کا ڈیٹا کسی نہ کسی بلاک چین پر محفوظ ہوتا ہے۔
بلاک چین چونکہ بےحد محفوظ ٹیکنالوجی ہے، اس لیے اسے صرف کرنسی ریکارڈ کرنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ جائیداد کے کاغذات یا کھانے پینے کی اشیا کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کہاں سے آتی ہے؟ یہ کمپیوٹرز کے ذریعے ’مائننگ‘ یا کھدائی کے عمل سے بنتی ہے۔ مائننگ ویسے تو کان کنی کو کہتے ہیں، جس کے تحت زمین سے قیمتی معدنیات نکالی جاتی ہیں، مگر یہاں مائننگ کا مطلب ہے کہ ریاضی کے بےحد مشکل سوالوں کو کمپیوٹر کی مدد سے حل کرنا۔ جب کمپیوٹر کوئی سوال حل کرتا ہے تو اسکے بعد اسے کرپٹو کرنسی، مثلا بٹ کوائن انعام کے طور پر ملتی ہے۔ جو کمپیوٹر سب سے پہلے حل کرے، اسے نیا بٹ کوائن انعام میں ملتا ہے۔ اسی عمل کے دوران بٹ کوائن کے تازہ ترین لین دین کو بلاک چین میں شامل کیا جاتا ہے۔ زیادہ طاقتور کمپیوٹر رکھنے والے افراد یا کمپنیاں اس بزنس میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ کمپیوٹر مقابلہ کرتے ہیں، سوال مزید مشکل کر دیا جاتا ہے اور ہر انعام میں ملنے والے بٹ کوائن کی تعداد وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ اس مائننگ کے عمل میں طاقتور کمپیوٹر دن رات چلتے ہیں، جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں، اسی لیے کرپٹو کرنسی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ماحول دوست نہیں ہے۔ بلاک چین کا ریکارڈ کسی ایک کمپیوٹر یا ادارے کے پاس نہیں بلکہ ہزاروں کمپیوٹروں میں محفوظ ہوتا ہے، جو آپس میں مسلسل اپنا ڈیٹا چیک کرتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی جعلی یا غلط لین دین آسانی سے ریکارڈ نہیں ہو سکتا۔ بلاک چین کا اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کوئی حکومت یا ادارہ مکمل کنٹرول نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کو غیر قانونی لین دین کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
روایتی کرنسی کی قیمت حکومت، سینٹرل بینک یا سونے کے ذخائر سے جڑی ہوتی ہے اور ہر نوٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ اسے حکومت کی ضمانت حاصل ہے۔ اس کے برعکس کرپٹو کرنسی کی قیمت حکومت کی ضمانت سے یا سونے چاندی وغیرہ سے نہیں بنتی۔ اس کی قیمت لوگوں کے بھروسے اور مارکیٹ میں طلب کی بنیاد پر مقرر ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ خریدنے کے خواہش مند ہوں، اتنی ہی قیمت اوپر چلی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ کرپٹو کو سرمایہ کاری کے طور پر خریدتے ہیں کہ قیمت بڑھے گی اور انہیں منافع ملے گا۔ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر کے بہت سے لوگ کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بنے ہیں۔
پاکستانی معیشت پر بھارتی حملے بے اثر، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ
اس کے علاوہ اسے عام کرنسیوں کی طرح استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے بعض آن لائن ادارے کرپٹو کرنسی قبول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کسی کو رقم بھجوانی ہو تو کرپٹو کرنسی استعمال کی جا سکتی ہے۔ کرپٹو کے شوقین اسے انتہائی محفوظ سمجھتے ہیں اور درحقیقت بٹ کوائن بلاک چین آج تک ہیک نہیں ہو سکی۔