اڈیالہ جیل میں قید کاٹنے والے عمران خان کا اصل قصور کیا ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں سزا کاٹنے والے عمران خان نے بطور وزیراعظم جو بویا تھا آج وہی کاٹ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عمران خان چونکہ فوج کی پیداوار تھے اس لیے انہیں کبھی فوجی آمروں سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ نہ انہیں جنرل ضیا سے کوئی مسئلہ ہوا اور نہ ہی جنرل مشرف سے۔ انہیں ہمیشہ سیاست دانون سے ہی مسئلہ رہا ہے۔ عمران کی طرح ان کے ساتھی بھی یہی راگ الاپتے ہیں کہ آج کے جمہوری دور سے تو جنرل مشرف اور جنرل ضیا کے ادوار اچھے تھے،۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ضیا دور میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو پھانسی دے دی گئی جسے بعد میں جوڈیشل مرڈر قرار دیا گیا۔ اسی طرح مشرف دور میں بے نظیر بھٹو شہید کو قتل کر دیا گیا۔

اپنی تازہ تحریر میں رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ چند روز پہلے سفر کے دوران میں ایک ریسٹورنٹ پر رکا تو ایک سیاسی ورکر میرے پاس آ بیٹھا اور سوالات کرنے لگا۔ اس کا پہلا سوال یہی تھا کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے: جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ تو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ میں خاموش رہ سکتا تھا لیکن مجھے لگا کہ موجودہ دور یقینا بُرا ہو گا لیکن جنرل ضیا اور جنرل مشرف کا دور کیسے اچھا ہو گیا؟ وہ صاحب کچھ دیر مجھے آمریت کے ادوار کے فوائد سناتے رہے اور میں چپ رہ کر سنتا رہا۔ وہ رکے تو میں نے کہا: جنرل مشرف یا جنرل ضیا کی آمریت کو اچھا ثابت کیے بغیر بھی تو موجودہ دور پر تنقید ہو سکتی ہے۔ لیکن موصوف کہنے لگے کہ وہ ادوار موجودہ دور سے بہتر تھے۔ میں نے پوچھا: کیسے بہتر تھے؟ بولے: جو کچھ اب ہو رہا ہے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ تشدد‘ سیاسی ورکرز جیل میں ہیں‘ اس پر میں نے کہا کہ آپ حقائق ٹھیک کریں تاکہ آپ کا کیس کمزور نہ پڑ جائے۔ اُن کی آنکھوں میں حیرانی اُبھری کہ بھلا موجودہ دور کیسے ضیا یا مشرف دور سے بہتر ہو سکتا ہے‘ خصوصاً جب عمران خان جیل میں ہیں۔

رؤف کلاسرا کے بقول میں نے موصوف کو یاد دلایا کہ جنرل ضیا نے ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مارشل لگایا اور پھر اسے جیل میں رکھنے کے بعد پھانسی دی تھی‘ اُس دور میں پی پی پی کے ورکرز کو بھی پھانسیاں دی گئیں تھیں‘ میں نے سوال کیا کہ کیا پچھلے ایک سال میں کوئی وزیراعظم یا ورکر پھانسی لگا؟ ضیا دور میں تو شاہی قلعے میں سیاسی ورکرز پر قید میں رکھ کر تشدد کیا گیا۔ انہیں سٹیڈیم میں عوام کے سامنے کوڑے مارے جاتے تھے اور اُن کے منہ کے آگے لاؤڈ سپیکر رکھے جاتے تھے تاکہ اُن کی چیخیں عوام کو اونچی سنائیں دیں۔ اگلے دن کوڑوں سے لہو لہان پشت کی تصاویر اخبارات کے صفحہ اول پر چھپتی تھیں۔

روف کلاسرا نے یاد دلایا کہ جس جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی دی تھی اُس کا عمران خان کے ساتھ بہت پیار تھا اور خان صاحب نے اسی کے کہنے پر اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیا تھا۔ پوری قوم نے کہا کہ ریٹائر نہ ہوں لیکن خان صاحب نہ مانے مگر جنرل ضیا کی بات مان لی۔ جس فوجی آمر نے دو حکومتیں اور اسمبلیاں توڑیں اور دو وزرائے اعظم، یعنی بھٹو اور جونیجو، کو گھر بھیجا وہ کیسے بہتر تھا؟ جہاں تک سیاسی ورکرز پر تشدد کی بات ہے تو ضیا دور میں سندھ میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فائرنگ کر کے اَن گنت ورکرز کو مارا گیا تھا۔

اس کے بعد رؤف کلاسرا نے جنرل مشرف دور کا پوسٹ مارٹم کیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس دور میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل ہوئی تھیں۔ کیا ایک سابق وزیراعظم کا جی ایچ کیو سے کچھ ہی دور دن دہاڑے سڑک پر قتل ہو جانا ایک معمولی واقعہ ہے؟ ایک اور سابق وزیراعظم‘ نواز شریف بھی اس دور میں جیل میں رہے کیوں کہ انہیں دہشت گردی کے الزام میں چودہ برس سزا سنائی گئی تھی‘ انسانی حقوق کی جو سنگین ترین خلاف ورزیاں مشرف دور میں ہو رہی تھیں وہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں؟ مشرف کے نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ میں سیاسی ورکر صدیق الفاروق کے بارے ایک رِٹ پر جواب دیا تھا کہ ہم تو انہیں گرفتار کر کے بھول گئے تھے۔ اُن دنوں نیب کسی کو بھی اٹھا کر نوے دن کیلئے ریمانڈ کے نام پر قید کر لیتی تھی۔ اکثر سیاستدانوں کی نیب کے ذریعے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ جس نے ایسا نہ کیا وہ پانچ‘ چھ سال جیل میں رہا۔ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی اس کی مثالیں ہیں۔ جتنے کرپٹ سیاستدان تھے‘ ان کے (ق) لیگ جوائن کرنے پر انہیں کلین چٹ دے دی گئی۔ تو کیا آپ اب بھی مشرف دور کو اچھا سمجھتے ہیں؟

عمران کی کال مسترد: بیرون ملک مقیم پاکستانی ریکارڈ رقم بھیجنے لگے

رؤف کلاسر بتاتے ہیں کہ میرے ان دلائل کے بعد عمران کے سپورٹر بولے کہ لیکن اس میں عمران کا کیا قصور ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے تو عمران خان کا نام نہیں لیا نہ ہی انہیں قصور وار کہا ہے‘ اگر آپ نے ان کا ذکر کر ہی دیا ہے تو پھر سن لیں کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تو عمران اُس وقت مشرف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ عمران خان مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی مہم بھی چلا رہے تھے‘ انہوں نے نہ صرف خود مشرف کے حق میں ووٹ ڈالا بلکہ دوسروں کو بھی قائل کیا۔ عمران کو امید تھی کہ جنرل مشرف انہیں وزیر اعظم بنائیں گے لیکن جب 2002 کے الیکشن سے پہلے مشرف نے کہا کہ یہ نہیں ہو پائے گا تو خان صاحب ناراض ہو گئے اور اُن کے خلاف تقریریں شروع کر دیں۔

سینیئر صحافی یاد دلاتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں خود انکشاف کیا تھا کہ وہ عمران خان کو آگے لانا چاہتے تھے لیکن موصوف نے الیکشن میں بہت زیادہ سیٹیں جتوانے کا مطالبہ کر دیا تھا لہذا وہ پیچھے ہٹ گئے۔ انکا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے دو بار مارشل لاء لگایا۔ اس نے ایک چیف جسٹس اور درجنوں ججز کو قید کیا‘ اور آپ اُس دور کو آج سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہی مشرف جس نے اکبر بگٹی کو فوجی آپریشن میں مروایا اور پورے بلوچستان میں آگ لگوائی، وہ مشرف آپ کو بہتر لگتا ہے؟

Back to top button