یوکرینی صدر کی رسوائی سے پاکستان کو کیا سبق سیکھنا چاہیے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے دفتر میں بھرپور ’’عزت افزائی‘‘ کے باوجود یوکرینی صدر زیلنسکی امریکہ کے ساتھ معدنیات کی ڈیل کرنے جا رہے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھکاریوں کے پاس اپنے مرضی کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہوتا لہٰذا رسوائی اور جگ ہنسائی کے باوجود انہیں پرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال پاکستان کا بھی ہے جسے معیشت بچانے اور چلانے کے لیے ہمیشہ آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں اور اس کی عائد کردہ تمام شرائط بھی قبول کرنا پڑتی ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بلال غوری کہتے ہیں کہ اتنی اہم ترین ملاقات میں یوکرینی سربراہ ریاست کے لباس پر امریکی صدر کی جانب سے طنز کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ یہاں پینٹ کوٹ زیب تن کرنے کے بجائے ٹی شرٹ پہن کر کیسے آ گئے۔ جواب میں یوکرینی صدر کو کہنا پڑا کہ جب جنگ ختم ہو گی تو میں کوئی ڈھنگ کا لباس پہننے پر غور کروں گا۔ جب یوکرین کے حالات کا تذکرہ ہوا تو زیلنسکی نے کہا کہ جنگ کے دوران سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خدا نہ کرے آپ کو بھی ایسی کسی جنگ کا سامنا کرنا پڑے، تب پتہ چلے گا آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بددعا نہیں دعا تھی مگر امریکی صدر کے دماغ کا ناریل چٹخ گیا اور وہ فرمانے لگے کہ آپ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ ہم کیا محسوس کریں گے۔ ہم ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہمیں بتائیں کہ ہم کیا محسوس کریں گے۔ آپ ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ کے پاس فی الحال کوئی کارڈ نہیں ہے۔ ہاں ہمارے ساتھ رہتے ہوئے آپ کے پاس کچھ پتے ہو سکتے ہیں۔

صدر زیلنسکی نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں کارڈ یا تاش کی بازی نہیں کھیل رہا، اس پر ٹرمپ مزید طیش میں آگئے اور کہنے لگے، آپ لاکھوں افراد کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، آپ تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔ اگر ہم نے یوکرین کو جنگی ساز و سامان نہ دیا ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ختم ہو گئی ہوتی۔ پھر انہوں نے اپنے پیش رو امریکی صدرجوبائیڈن کو اسلحہ فراہم کرنے پر احمق قرار دے دیا۔ اس ملاقات کے بعد یورپی ممالک نے زیلنسکی کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی، اس کے حق میں بیانات جاری کیے۔ بعض ممالک نے تو اپنے فوجی دستے بھجوانے کی پیشکش بھی کی لیکن زیلنسکی کو یہ حقیقت بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جب تک بائیں طرف ایک کا اضافہ نہ ہو، دائیں جانب کے تمام صفر بے معنی ہیں۔ یورپی ممالک نہ تو جنگ جاری رکھنے کیلئے یوکرین کو 350 بلین ڈالر فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ دفاعی ساز و سامان جو مزاحمت کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ امریکی حمایت حاصل نہ ہونے کی صورت میں زیلنسکی کے اقتدار کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا یوکرینی صدر بد مزہ نہیں ہوئے اور اپنی طبع سے مجبور ہوکر امریکی ہم منصب کی شان میں کسی قسم کی گستاخی یا جگت بازی سے گریز کیا۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ امریکی صدر کے دفتر  میں یوکرینی صدر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسے دیکھ کر مجھے انگریزی کی وہ مشہور کہاوت یاد آ گئی کہ جب کوئی مسخرہ محل میں داخل ہوتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ پورا محل سرکس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ چونکہ صدر ٹرمپ ماضی میں ریسلر رہے ہیں اور یوکرینی صدر سیاست میں آنے سے پہلے کامیڈین تھے، لہٰذا یہ کوئی سفارتی ملاقات نہیں بلکہ دو فنکاروں کے درمیان پرفارمنس کا مظاہرہ تھا۔ مگر اس میں عقل والوں کیلئےبہت سی نشانیاں ہیں۔یوکرین کو یورپ میں سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ معدنیات کے ذخائر کے حوالے سے یوکرین پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 19ملین ٹن گریفائٹ کے ذخائر ہیں جن سے الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں تیار ہوتی ہیں۔ لیتھئیم سے بھی بیٹریاں تیار کی جاتی ہیں اور اس کی بھی یوکرین میں فراوانی ہے۔ ٹائٹینیم جیسی قیمتی دھات جو پاور سٹیشنز تعمیر کرنے میں استعمال ہوتی ہے، اس کے دنیا بھر کے ذخائر کا 7 فیصد یوکرین کے پاس ہے۔ اس کے علاہ 17 نایاب قسم کی معدنیات پر یوکرین کی اجارہ داری ہے۔اس کے علاوہ 1991 میں سویت یونین سے علیحدگی کے وقت یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ بھی موجود تھا۔

بلال غوری بتاتے ہیں کہ یوکرین کے پاس 1900 ایٹم بم اور 176 بیلسٹک میزائل بھی موجود تھے۔  لیکن یوکرینی حکومت کو کہا گیا کہ اگر آپ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیں، اور یہ سب جوہری ہتھیار واپس کر دیں تو ہم آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے اور تعمیر و ترقی کیلئے معاشی امداد دینے کو تیار ہیں۔ 31جولائی 1991ء کو سہہ فریقی معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ قومی سلامتی کی یقین دہانیوں پر یوکرین نے 1996ء میں سب جوہری ہتھیار واپس کر دیئے۔ پھر 2009ء میں امریکہ اور روس نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ 1991 میں یوکرین کو قومی سلامتی کی جو یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں، ہم ان کے پابند ہیں۔ مگر روس نے مارچ 2014ء میں یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور پھر فروری 2022ء میں ایک بار پھر یوکرین پر چڑھ دوڑا۔

حکومت مخالف اتحاد: PTI کو عید کے بعد مولانا کی واپسی کا انتظار

اب صورتحال یہ ہے کہ یوکرین کے 350 ارب ڈالرز کے ذخائر پر روس قابض ہے جبکہ اسکے باقی ماندہ معدنیات کے ذخائر امریکہ ہتھیانا چاہتا ہے۔ بیانات کی حد تک تو زیلنسکی نے کہا تھا کہ میں اپنا ملک نہیں بیچوں گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اب یوکرینی صدر کے پاس کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں، اگر وہ امریکہ کو مناتا نہیں تو وہ بھی صدام حسین کی طرح مارا جائے گا اور اگر وہ امریکہ کو منا لیتا ہے تو پھر اسی کے اشاروں پر ناچتا رہے گا۔  اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے عوض پاکستان کو بھی ایسی ہی پرکشش ترغیبات دی گئی تھیں۔ لیکن اگر تب ہمارے حکمران اس جھانسے میں آگئے ہوتے تو آج پاکستان کا کیا حال ہوتا؟، اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

Back to top button