انڈیا پاکستان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے کون سا نیا چورن بیچ رہا ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ رقبے، آبادی اور معیشت کو دیکھیں تو بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دفاعی صلاحیت کے حوالے سے یہ چھوٹا ملک بھارت سے کسی طرح کم نہیں بلکہ اسکی ٹکر کا ہے۔ کچھ دفاعی ماہرین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور ایئرفورس کی ماضی کی پرفارمنس کی بنیاد پر پاکستان کو بھارت پر دفاعی برتری حاصل ہے۔ انکا کہنا ہے کہ یہ برتری بھارتی حکمران مودی کیلئے ناقابل قبول ہے جو اکھنڈ بھارت یا گریٹر انڈیا کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی دفاعی برتری کا تاثر ختم کرنے کیلئے وہ جھوٹے پروپیگنڈہ کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں، تاہم یہ ہتھیار بھارت کے اندر تو کام کر رہا ہے لیکن انڈیا سے باہر کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی پاکستان کانفرنس کا سب سے بھرپور سیشن پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے تھا۔ کانفرنس میں موجود حامد میر کہتے ہیں کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک کامیاب پاکستان کانفرنس بھارت کیلئے ایک بم شیل تھا کیونکہ امریکا کی سابق نائب وزیر خارجہ رابن رافیل نے پہل گام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزام پر اہم سوالات اٹھا دیئے تھے جن کا جواب آج دن تک نہیں آیا۔

 حامد میر کہتے ہیں کہ کانفرنس میں موجود ایک امریکی پروفیسر نے مجھے بتایا کہ امریکہ میں بھارتی لابی مختلف تعلیمی اداروں میں اکھنڈ بھارت کے موضوع پر کانفرنسز کرواتی ہے لیکن انہوں نے کبھی کشمیر کے موضوع پر کوئی کانفرنس ہوتے نہیں دیکھی۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ ہارورڈ سمیت امریکہ کی کئی اہم یونیورسٹیوں میں بھارتی اساتذہ اور ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس انڈین لابی کو اسرائیلی لابی کی مدد حاصل ہے۔ انہوں نے اب امریکیوں کو یہ تھیوری بیچنا شروع کر دی ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ صرف ایک مضبوط انڈیا ہی کر سکتا ہے اور انڈیا کو مستحکم کرنے کا راستہ اکھنڈ بھارت یا گریٹر انڈیا کے نظریے میں ہے۔

امریکی پروفیسر نے حامد میر سے کہا کہ تین سال پہلے جب ایک انڈین ڈپلومیٹ نے مجھے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور افغانستان دراصل انڈیا کا حصہ تھے لیکن نو آبادیاتی طاقتوں نے انڈیا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئےتو میں نے تحقیق شروع کر دی۔ اس ریسرچ کے بعد مجھے پتہ چلا کہ گریٹر انڈیا کا نظریہ کوئی تاریخی سچائی نہیں بلکہ محض ایک افسانہ ہے۔

آزاد کشمیر میں 1000 سے زیادہ دینی مدرسے بند کیوں کر دیے گئے ؟

حامد میر بتاتے ہیں کہ کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان واپسی سے قبل مجھے نیویارک میں ایک امریکی تھنک ٹینک نے گفتگو کے لئے بلایا۔ یہ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی لیکن یہاں بھی اکھنڈ بھارت کا ذکر بار بار آتا رہا۔ امریکہ کے سفارتی حلقوں میں آہستہ آہستہ یہ احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ بھارت کی طرف سے چین اور امریکہ کی محاذ آرائی کا فائدہ اٹھا کر اکھنڈ بھارت کے نظریے کو امریکہ میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ صرف پاکستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور افغانستان کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے۔ فی الحال امریکہ میں اس نظریے کو قبولیت نہیں مل رہی لیکن پاکستان کو اس نظریے کے ٹارگٹ ممالک کےساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ نظریہ دنیا کو ایک ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

Back to top button