سانحہ 9 مئی پر فوج اور عمران کے ڈیڈ لاک کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ اسلیے نہیں نکلنا کہ پی ٹی آئی 9 مئی 2023 کے حملوں کی عدالتی تحقیقات چاہتی ہے جبکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران اور ان کی جماعت کو بجا طور پر 9 مئی کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوں یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، دونوں کو جسمانی طور پر اس لیے ختم کر دیا گیا کہ وہ عوام میں مقبول تھے۔ ایک جانب باپ سیاست کو بند کمروں سے باہر عوام میں لایا تو دوسری طرف بیٹی سیاست کو ’’بند گلی‘‘ سے باہر لائی۔ لیکن تاریخ کے ان دونوں اہم ترین کرداروں کو راستے سے اسلئے ہٹا دیا گیا کہ نہ تو اِس ملک میں مقبول رہنما کو برداشت کیا جاتا ہے نہ ہی عوامی سیاست کو۔ جس نے بھی سیاست کو ’’بند گلی‘‘ سے باہر لانے کی کوشش کی اُسے یا تو ناکام بنا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں نہ کبھی آزادانہ الیکشن ہوئے ہیں اور نہ ہی منصفانہ۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے میں کوئی بھی ’’سیاسی مذاکرات‘‘ کتنے کامیاب ہوسکتے ہیں اِس کا اندازہ حکومت اور اپوزیشن کی بنائی ہوئی مذاکراتی ٹیم اور اُنکے بعض رہنمائوں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ جب بھی سیاستدان مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں کچھ قوتیں اُن کی ناکامی کیلئے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ ان میں خود ان جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہوتے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا غلط نہ ہوگا کہ 1971 میں اور 1977ء میں وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیئے۔ نتیجے میں سیاست ’’بند گلی‘‘ سے باہر ہی نہ آ سکی، یہاں تک کے ملک دو لخت ہو گیا یا پھر مارشل لا لگ گیا۔ آج تو ہم ایک ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ کے تحت سیاست کر رہے ہیں اور حکومت، جو مسلم لیگ (ن) اور اُنکے اتحادیوں پر مشتمل ہے، نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف سے براہ راست نہ سہی، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ذریعہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان کوئی نوابزادہ نصراللہ خان یا میر غوث بخش بزنجو تو ہے نہیں پھر بھی بہت بہتر ہوتا اگر ان مذاکرات میں حکومت کی جانب سے خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، خورشید شاہ اور اپوزیشن کی جانب سے فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور شاہ محمود قریشی موجود ہوتے، جن کو جیل سے لایا جا سکتا تھا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے بنائی گئی موجودہ ٹیموں میں بھی کچھ سنجیدہ لوگ موجود ہیں مگر ایسے بھی ہیں جو شاید پیشرفت ہونے کی صورت میں معاملات کو خراب کر سکتے ہیں۔ ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ تصور کریں کہ 1977ء میں دونوں جانب سے مذاکراتی ٹیمیں کن افراد پر مشتمل تھیں۔ ایک طرف خود اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اُس وقت کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی تو دوسری طرف پروفیسر غفور، مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ جیسے سیاسی اکابر۔ حکومتی ٹیم کو کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ اپوزیشن کی مشکل یہ تھی کہ پاکستان قومی اتحاد 9 جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اس سب کے باوجود وہ مذاکرات کامیاب ہونے لگے تو ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ بھٹو صاحب اچانک غیر ملکی دورے پر چلے گئے حالانکہ وہ اسی عرب دنیا کے پرانے خاص طور پر اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے گئے تھے جنہوں نے پس پردہ بات چیت کروائی تھی۔

آج صورت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ایک ’’بی۔ ٹیم‘‘ کر رہی ہے ورنہ اس وقت ہماری سیاست کے تین مرکزی کردار ہیں عمران خان، میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری اور ایک نام کا اگر میں اور اضافہ کر دوں تو وہ ہیں مولانا فضل الرحمان۔ مذاکرات ہوتے ہی ایک مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئےہیں۔ اگر عمران اور نواز شریف ہی اپنی اپنی ’’سیاسی انا‘‘ کو ایک طرف رکھ کر ملک کو ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ سے باہر لا کر ایک مضبوط جمہوری نظام کی طرف جانے کی کوشش کریں تو شاید معاملات ایک نئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ مگر موجودہ سیاسی کشیدگی میں یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے میں اصل سوال یہ ہے کہ پھر موجودہ بات چیت کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے۔ حکمراں اتحاد خاص طور پر مسلم لیگ (ن) 9 مئی کے پیچھے چھپی نظر آتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کا مطالبہ 9 مئی پر عدالتی کمیشن کا ہے۔ حکومت کہتی ہے 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے پانچ جوان شہید ہوئے پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے اُن کے 12 کارکن شہید ہوئے اور یہاں بھی اُن کا مطالبہ عدالتی کمیشن بنانے کا ہے، لیکن مذاکرات کا اصل محور 8 فروری 2024ءکے انتخابات اور ’’مینڈیٹ‘‘ کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اُسکا مینڈیٹ ’’چوری‘‘ ہوا ہے جو اُسے واپس دیا جائے یعنی موجودہ حکومت کا کوئی قانونی جواز نہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اگر بات مینڈیٹ سے ہی شروع کرنی ہے۔ ایسے میں ابتدا 2018 سے کرنی ہوگی، یعنی دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں اُن کا الیکشن چوری ہوا البتہ ’’کس نے کیا‘‘، اس پر بات دبے الفاظ میں یا پھر آف دی ریکارڈ ہی کی جاتی ہے۔

مظہر عباس کے بقول 1977 میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو ہڑتال اور احتجاج روک دیا گیا۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کو ’’سول نافرمانی‘‘ کی کال کو روک دینا چاہئے کیونکہ عمران خود بھی جانتے ہیں کہ 24 نومبر کی ’’فائنل کال‘‘ سے انہیں خود کتنا نقصان ہوا۔ دوسری طرف حکمران اتحاد کو بھی سیاسی رویہ دکھانا ہوگا جس کی ابتدا اُن سیاسی کارکنوں کی رہائی سے ہو سکتی ہے جن پر سنگین الزامات نہیں ہیں۔

عمران خان خود اپنی اور PTI کی سیاسی قبر کیوں کھود رہے ہیں؟

مظہر عباس کے بقول کڑوا سچ یہی ہے کہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم سیاستدان کی شہادت کے بعد پاکستانی سیاست پھر ’’بند گلی‘‘ میں چلی گئی ہے۔ اب اسے اس گلی سے باہر لانا اس لئے بھی زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی سیاسی سپیس کھو چکے ہیں اور ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کو قبول کر چکے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ یے کہ کیا ملک کے روشن خیال اور جمہوری سوچ رکھنے والے سیاست کا اعتبار واپس لا سکیں گے۔ اس کی ابتدا دونوں بڑے فریقوں کو اپنی جماعتوں کی ’’زبان بندی‘‘ سے کرنا ہو گی، چاہے بات چیت ابتدائی طور پر زیادہ آگے نہ بڑھ سکے۔ باقی رہ گئی بات تیسری قوت کی تو حکومتیں بنانے اور گرانے اور جماعتیں بنانے اور توڑنے میں اسکے کردار نے قومی وحدت کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

Back to top button