ہم کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کرتے ہیں : عرفان صدیقی

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم حکومت ہیں اگر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت ضرور کرتے ہیں،دونوں ملک کے مفاد کےلیے سوچتے ہیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ مذاکرات ہوجاتے ہیں تو ان پر عمل درآمد کرنے کی طاقت ہونا بھی ضروری ہے،ہم حکومت ہیں اگر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت ضرور کرتےہیں،دونوں ملک کےمفاد کےلیے سوچتے ہیں۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے کہاکہ وزیر اعظم نے جب کمیٹی بنائی تو اس کا مطلب ہےبہت سی جگہوں سے مشاورت کی گئی ہوگی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہاکہ سیاسی جماعتوں کےدرمیان مذاکرات ہونے چاہییں۔

سینیئر لیگی رہنما نے کہاکہ میں ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ جو بھی وزارت داخلہ کے اندر ذمہ دار ہیں وہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات کرائیں،لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہےکہ کیا سارا سلسلہ ملاقات کےلیے ہو رہا ہے یا مذاکرات کےلیے ہورہا ہے۔ علی امین گنڈاپور عمران خان سے مل کر ایک پیغام لےکر آئے ہیں کہ تحریری مطالبات دےدیں تو پھر 8 آدمیوں کا ملنا کیوں ضروری ہے ؟۔

شیر افضل کا سلمان اکرم راجہ کو سیکریٹری جنرل ماننے سے انکار

سینیٹر عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے بقول اگر اس حکومت کے 3، 4 مہینے رہتے ہیں تو پھر اس حکومت سے کیوں بات چیت کی جا رہی ہے یہ تو ویسے بھی جا رہے ہیں تو کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں۔میرے نزدیک کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ہورہے جو ہورہا ہے مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ہو رہا ہے۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف کی مشاورت اور مرضی سے بنی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جو کمیٹی بنی وہ ابھی بھی اپنے مؤقف میں کلیئر نہیں ہے،کبھی کہتےہیں کہ ملاقات نہیں کرائی جارہی، کبھی کہتے ہیں کہ اکیلےملنا ہے۔جب تک یہ اپنے موقف میں کلیئر نہیں ہوں گےتو بات آگے کیسے بڑھےگی۔

انہوں نےکہا کہ حکومت اور اتحادیوں نے کبھی یہ بات نہیں کی کہ مذاکرات نہیں ہوں گے،ہم نے کبھی نہیں کہاکہ کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے یا بات نہیں کریں گےبلکہ یہی کہاکہ ہم ہر وقت بات کرنے کےلیے تیار ہیں۔26 نومبر کو فائنل کال کی ناکامی کےبعد انہوں نے ہم سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا،انہوں نے کمیٹی بنائی اور اسپیکر کےپاس گئے۔ہم نے ویلکم کیا اور مذاکرات کا دور شروع ہوا۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ ہم بھی جیلوں میں رہےہیں ہم بھی نواز شریف سے ملاقات کےلیے جایا کرتے تھے،ہماری ملاقاتوں میں بھی تو پولیس والے کھڑےرہتے تھے،ہم تو چاہتےہیں کہ ہماری باتیں سنیں،کیمرے لگے ہوں بےشک لیکن یہ لوگ کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔کیا یہ ملک کےخلاف کوئی بات کر رہے ہیں۔ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جیل کا ایک نظام ہوتا ہے،کیا اس کو بائی پاس کر لیا جائے۔

عرفان صدیقی نےکہا کہ اگر آپ پر پیشکشوں کی بارش ہورہی ہے اور نوازشات ہو رہی ہیں تو آپ مذاکرات سےکیا چاہتے ہیں۔ آپ کےبقول یہ تو بےبس کمیٹی ہے تو ہمیں حیرت ہےکہ ہم سے کیوں مذاکرات کر رہے ہیں ہم آپ کو کیا دےسکیں گے۔

انہوں نےکہا کہ ہم نے کبھی بھی مذاکراتی کمیٹی سے یہ نہیں کہاکہ ہمارا کوئی مطالبہ ہے،ہم نے ان کو کبھی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنےکا نہیں کہا،نہ ہم نے سول نافرمانی کی کال واپس لینےکا کہا۔شاید آگے چل کر ہماری کچھ ڈیمانڈز ہوں۔ ہم یہ چاہیں گے ملک کےجو مسائل ہیں ان پر بات چیت ہو۔

Back to top button