پاکستان اور انڈیا میں سے کس ملک کے ڈرونز زیادہ خطرناک ہیں ؟

ساؤتھ ایشیا کے دونوں نیوکلیئر ہمسائے یعنی انڈیا اور پاکستان گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل اپنے اسلحہ خانے میں ملٹری ڈرونز کی تعداد بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے غیر ملکی ڈرونز خریدنے کے علاوہ خود بھی ایسے ڈرونز کی تیاری کا عمل شروع کر دیا ہے جو بغیر پائلٹ کے دشمن کی نگرانی یا جاسوسی کرنے کے علاوہ اسے نشانے بنانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی مستقبل کی جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہوگی۔
انکا خیال ہے کہ افواج میں وسیع پیمانے پر ڈرونز کی شمولیت نے جنوبی ایشیا میں جنگ کا طریقہِ کار بدل دیا ہے اور آئندہ کسی بھی تنازع یا جھڑپ کی صورت میں ڈرون کا استعمال کہیں زیادہ ہوگا۔
دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت پاکستان اور چین میں بڑے پیمانے پر ڈرونز کی موجودگی اور ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی اور نگرانی میں انکا بڑھتا ہوا استعمال مستقبل میں ٹکراؤ اور کشیدگی بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے جس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ ساؤتھ ایشیا کے دونوں بڑے روایتی حریفوں انڈیا اور پاکستان کے پاس کسطرح کے ڈرونز موجود ہیں۔
یاد رہے کہ عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز انتہائی اونچائی پر دیر تک پرواز کرنے اور ریڈار میں آئے بغیر زمین پر فوج کی سرگرمیوں، اہم تنصیبات، نئی تعمیرات اور فوجی ٹھکانوں کی موثر نگرانی اور مخصوص ہدف کو تباہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔پاکستانی دفاعی ماہرین کے مطابق ایک فوجی ڈرون تین بنیادی کام کر سکتا ہے: پہلا نگرانی کرنا اور حریف کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا، دوسرا جاسوسی کرنا، یعنی یہ دیکھنا کہ دوسری طرف اسلحہ یا فوجی کہاں تعینات ہیں، تیسرا کام ہدف کی نشاندہی اور اسے تباہ کرنا ہے۔ کئی ڈرونز یہ تینوں کام کرتے ہیں مگر بعض کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔
اگر ہم ڈرونز کے لحاظ سے انڈیا اور پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں ان کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ انڈیا کا دعوی ہے کہ آئندہ چار برس میں اس کے پاس تقریباً پانچ ہزار ڈرونز ہوں گے۔ دوسری جانب ویسے تو پاکستان کے پاس ’انڈیا سے کم‘ ڈرونز ہیں لیکن اسکے باوجود پاکستان کے پاس موجود ڈرونز میں بہتر صلاحیتیں ہیں اور یہ 10 سے 11 مختلف ساخت کے ہیں۔ اگر ہم انڈیا کی مثال لیں تو اس نے رواں سال اکتوبر کے دوران امریکہ سے ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے 31 ’پریڈیٹر‘ ڈرون خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ 500 ملین ڈالر کے ان ڈرونز کے ذریعے ہدف کو تباہ کرنے میں استعمال ہونے والے بم اور لیزر گائیڈڈ میزائل بھی خریدے جائیں گے۔
خیال رہے کہ پریڈیٹر ڈرونز دنیا کے سب سے کامیاب اور خطرناک ڈرون تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا استعمال افغانستان، عراق، شام، صومالیہ اور کئی ديگر ملکوں کے ٹھکانوں اور اہداف کو تباہ کرنے میں کیا گیا تھا۔ انڈیا اس سے پہلے اسرائیل کے ’ہیرون‘ خرید چکا ہے اور اسرائیل ایرو سپیس ایجنسی سے لائسنس کے تحت وہ اب یہ ڈرون خود انڈیا میں بنا رہا ہے۔ ادھر پاکستان نے براق اور شہپر جیسے بعض ڈرونز خود بھی بنائے ہیں۔ پاکستان کے پاس ترک ساختہ جدید ’بیراکتر‘ ڈرونز ٹی بی ٹو اور ایکنجی ہیں جبکہ اس نے چین سے ’وینگ لونگ ٹو‘ اور ’سی ایچ 4‘ جیسے ڈرون بھی حاصل کیے ہیں۔ 2022 کے دوران پاکستان نے فلیگ شپ ڈرون ’شہپر ٹو‘ کی نمائش کی تھی اور بتایا تھا کہ یہ ایک ہزار کلومیٹر تک پرواز کر کے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بتایا گیا تھا کہ پاکستانی ڈرون اپنے ہدف کو لیزر بیم سے لاک کر کے اسے میزائل سے تباہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح پاکستان آرڈیننس فیکٹری کی جانب سے پہلے ’ابابیل‘ کے نام سے سرویلنس ڈرونز بنائے گئے تھے جنھیں جنگی مقاصد کے لیے مسلح کیا گیا تھا۔ کچھ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک فضائیہ انڈیا کے ایس – 400 اور پرتھوی کے جدید فضائی دفاعی نظام کو موثر طریقے سے ٹارگٹ کر کے انڈیا کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر سکتی ہے۔ انکا کہنا ہے پاکستان کی ڈرون صلاحیت بڑھ رہی ہے اور اس کا مکمل فوکس اس صلاحیت میں مسلسل اضافہ کرنے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان ڈرونز کی پرواز کرنے کی صلاحیت تقریباً 50 گھنٹے تک کی ہے۔ جنگی جہاز انھیں تباہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ان کی پرواز کی اونچائی کی حد سے بہت اوپر اڑتے ہیں۔ ان جدید ڈرونز کے باعث پاکستان کو بھارت پر کافی حد تک ’سٹریٹیجک اور ٹیکٹیکل سبقت ملتی ہے۔
1965 کی پاک انڈیا جنگ کا فاطمہ جناح سے کیا تعلق تھا ؟
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری جنوبی ایشیا میں جوہری ٹھکانوں اور اثاثوں سمیت عسکری اہداف پر ٹارگٹڈ حملے کرنے کی ڈرون کی موثر صلاحیت نے جنگ کی صورت میں تباہی کے امکانات کو وسیع کر دیا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں لڑائی میں انسان کام کرتے تھے انہیں اب مشینیں ریپلیس کر رہی ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی ڈرون کی ریس نہیں ہے بلکہ یہ وارفیئر میں ہونے والی تکنیکی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ دنیا اب ڈرونز وار فیئر کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ڈرون وار فیئر موجودہ وقت اور مستقبل کا وار فیئر ہے۔‘