شہباز کو فوج کا اردلی کہنے والے عمران کس جرنیل کو باپ کہتے تھے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے شہباز شریف کو فوج کا اردلی قرار دینے کے بعد سوشل میڈیا پر جگت بازی کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ عمران خان کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو اپنا باپ قرار دیتے تھے اور اپنے سیاسی مخالفین سے فوج کے جوتے پالش کرنے کے طعنے سنا کرتے تھے۔

اپنے تازہ تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ ہم نے برطانوی سامراج کی جن نشانیوں کو ابھی تک سینے سے لگا رکھا ہے۔ ان میں سے ایک بیٹ مین یا اردلی کا تصور ہے۔ اسے آپ فوجی افسروں کا باوردی خدمت گار کہہ سکتے ہیں۔ اردلی یا بیٹ مین فوج کا نہایت اہم حصہ سمجھے جاتے تھے۔ فوجی افسروں کے کتوں کو ٹہلانا ،بچوں کو اسکول لیکر جانا، صاحب کی وردی تیار رکھنا، جوتے چمکانا، یہ سب کام اردلی کے فرائض میں شامل ہوا کرتے تھے۔

جب تاج برطانیہ نے امیر افغانستان دوست محمد خان کو شکست دیکر کابل فتح کیا تو انگریز فوجی افسروں کے ساتھ خدمت گاروں کی فوج یہاں بھیجی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ساڑھے سولہ ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کی خدمت کیلئے لگ بھگ 38000ہزار اردلی تعینات تھے۔ 1839ء کے آخر میں کابل کی فوجی چھائونی میں موجود انگریز افسروں کی بیگمات اور خدمت گاروں کی کلکتہ سے کابل آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افغانوں کا خیال تھا کہ برطانوی فوج کا یہاں قیام عارضی ہوگا اور وہ شاہ شجاع کو تخت پر بٹھا کر واپس لوٹ جائیں گے۔ لیکن انہیں اب یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی کہ انگریزوں کی نیت اس ملک میں طویل عرصہ تک قیام کرنے کی ہے اور افغانستان پر قبضہ عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے۔ جلد ہی برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ 23دسمبر 1841ء کی دوپہر برطانوی ریزیڈنٹ میکناٹین کا سر کاٹ کر نیزے کی نوک پر پیوست کردیا گیا اور کابل شہر میں گھمایا گیا پھر میکناٹن کی لاش کو کابل مین بازار میں نشان عبرت کے طور پر لٹکا دیا گیا۔

میکناٹین کے یوں مارے جانے سے، تاج برطانیہ کا غرور خاک میں مل گیا اور فرنگی فوج کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ اتنی تفصیل بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت کے فوجی افسر اپنے بیٹ مین پر کس قدر انحصار کیا کرتے تھے۔ اردلی کلچر برطانیہ ہی نہیں فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک کی افواج میں مقبول رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں یہ رجحان ختم ہو گیا مگر بھارت اور پاکستان میں بری فوج کے افسروں کو باوردی خدمت گار مہیا کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی رہی کہ اگر فوجی افسروں کے گھروں میں سویلین خدمت گار تعینات ہوں گے تو عسکری کلچر سے نابلد ہونے کے باعث انواع و اقسام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر حساس معلومات بھی لیک ہو سکتی ہیں۔ بھارت میں تو مسلسل اردلی کلچر کے خلاف بات ہوتی رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ اور بحریہ میں تو بیٹ مین کی سہولت بہت پہلے ختم کردی گئی تھی مگر بری فوج جس میں اردلی کو سہائیک کہا جاتا ہے، اس کے حوالے سے کئی بار یہ تجویز سامنے آئی کہ سامراجی دور سے جڑی اس روایت کو ختم کر دیا جائے۔

حکومت اور PTI کے مابین مذاکراتی عمل خاتمے کی جانب گامزن

اب سابق وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف پر پھبتی کسی ہے کہ وہ محض ایک کٹھ پتلی اور آرمی چیف کے اردلی ہیں۔ بانی تحریک انصاف کے مطابق شہباز شریف سے کہیں زیادہ طاقتور وزیر اعظم تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر جگت بازی کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ فوج کو پتہ ہے میں چھٹی نہیں کرتا ۔چونکہ اردلی کو اپنی مرضی سے چھٹی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے ان کے سیاسی مخالفین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اردلی کون ہوا؟ بلاشبہ شوکت عزیز بہت بااختیار اور طاقتور وزیر اعظم تھے، لیکن ان کی طاقت کا منبع عوام نہیں تھے اور ان کا منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں عمران خان چاہیں تو مو جودہ حکومت کا اپنے دور سے موازنہ کر سکتے ہیں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ اگر سربراہ حکومت کا منصب اتنا ہی بے توقیر ہو گیا ہے تو جناب عمران خان ایک بار پھر اردلی بننےکیلئے ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا رہے ہیں؟ کیونکہ انہیں اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ وزیر اعظم کی حیثیت اردلی جیسی ہو گئی ہے، انہیں یہ گلہ ہے کہ بھرپور خدمت گزاری ،فرض شناسی اور تابعداری کے باوجود انہیں اردلی کے منصب سے کیوں ہٹا دیا گیا۔ تو جناب اردلی فوجی افسر کی منشا و مرضی کے مطابق تعینات ہوتا ہے، بعض اردلی چند سال نہیں نکال پاتے اور کچھ بیٹ مین ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے صاحب سے جڑے رہتے ہیں۔ بسا اوقات ریٹائرمنٹ کے بعد راہ و رسم رکھنے والے صاحب احتساب کی زد میں آجاتے ہیں تو اردلی کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

Back to top button