علی گنڈاپور کی کون سی غلطی عمران خان کے لیے ناقابل معافی ہے ؟

26 نومبر 2023 کی رات اسلام آباد کے ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ کر پشاور واپس لوٹ جانا علی امین گنڈاپور کی وہ غلطی ہے جسے عمران خان معاف کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ وہ اس غلطی کی سزا دینے کے لئے مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔ پہلے مرحلے میں عمران نے علی گنڈاپور کو پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ کی صدارت سے ہٹایا ہے لیکن اگلے مرحلے میں ان کی وزارت اعلی سے چھٹی کا بھی امکان ہے۔
اپنے تازہ تجزیے میں معروف صحافی نصرت جاوید ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان وزیراعلی خیبر پختون خواہ کا گزشتہ کئی مہینوں سے شک وشبہ کی نگاہ سے جائزہ لے رہے تھے۔ گنڈا پور اس تناظر میں ان کے بہت کام آئے۔ اس دوران اپنے کپتان کی کال پر مارچ کرتے ہوئے گنڈاپور نے کم از کم تین بار وفاقی اور پنجاب حکومت کو کنٹینروں کی پناہ میں محصور ہونے کو مجبور بھی کیا۔ لیکن وہ معاملات کو وہاں تک لے جانہ سکے جسے انگریزی میں ’’اینڈ گیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’اینڈ گیم‘‘ تک پہنچنے میں ناکامی نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو ’’اجازت‘‘ دیں کہ وہ فدائین عمران خان کا ایک گروہ لے کر 24 نومبر 2024ء کے روز اسلام آباد کے ڈی چوک آئیں۔ ڈو اور ڈائی‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بشریٰ بی بی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود 26 نومبر کی شام اسلام آباد میں داخل ہوگئیں۔
لیکن ڈی چوک کے نہایت قریب پہنچ جانے کے بعد گنڈاپور نے ’’حکومتی بندوبست‘‘ کے معماروں کے ساتھ تخت یا تختہ والا پھڈا ڈالنے سے گریز کیا۔ اس دوران پراسرار حالات میں وہ کنٹینر بھی ’’اچانک‘‘ جل گیا جس میں بیٹھ کر بشریٰ بی بی نے ڈی چوک پہنچ کر تب تک وہاں دھرنا دئے رکھنا تھا جب تک حکومت عمران کو رہا کرنے پر آمادہ نہ ہوتی۔ مگر علی امین کی ناقص حکمت عملی نے 26 نومبر کی رات ’’ڈو اور ڈائی‘‘ والی گیم ناکام بنادی۔ اس ناکامی نے عمران کو ایک ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ سے بھی محروم کردیا۔ گھریلو اور پردہ دار خاتون ہوتے ہوئے فدائینِ عمران خان کے کاررواں کے ساتھ بشریٰ بی بی کا اسلام آباد داخل ہوجانا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہی تو تھا۔ اسے بھر پور انداز میں کھیلنے کے بجائے علی امین حکومتی بندوبست کے معماروں سے مذاکرات کے بعد خیبر پختونخواہ لوٹ گئے اور بشریٰ بی بی کے لئے بھی اس کے علاوہ کوئی راہ نہ چھوڑی۔ لہٰذا ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ کر پشاور لوٹ جانا علی امین گنڈاپور کی وہ غلطی ہے جسے فراموش کرنے کو عمران خان کبھی آمادہ نہیں ہوں گے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گرفتاری سے پہلے بشریٰ بی بی پشاور میں طویل قیام کی بدولت عمران خان کو وہاں کے حکومتی بندوبست بارے تفصیل سے آگاہ کر چکی ہیں۔ لہٰذا اب عمران خان اس بندوبست کو براہ راست چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں اب علی امین گنڈاپور کی طرح وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والے لوگ درکار نہیں۔ عمران خان نے اپنے ان خیالات کا اظہار اگلے روز جیل میں گفتگو کے دوران بھی کیا ہے۔ انہوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ علی امین گنڈاپور تحریک انصاف کا کباڑا کرنے والے وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ جس طرح جپھیاں ڈالتے ہیں وہ انہیں بالکل بھی قابل قبول نہیں۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ ان کی کبھی علی امین گنڈاپور سے کبھی سرِ راہ بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اپنے حلیئے، رویے اور بول چال سے وہ ایک روایت شکن سیاستدان نظر آتے ہیں جو عمران خان کے وفادار اور ان کی خاطر جان دینے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ فروری 2024ء کے انتخاب کے قریب انہیں گنڈاپور کے بارے میں انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے یہ خبر ملی کہ وطن عزیز میں ’’حکومتی بندوبست‘‘ تشکیل دینے والی قوتوں کو بھی وہ بہت پسند ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ انکی سرپرستی میں علی امین ضرورت سے زیادہ ’’انقلابی‘‘ ہونے کی سہولت سے بھی مالا مال ہیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ’’حکومتی بندوبست‘‘ کے ’’معمار‘‘ جس کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں وہ ’’سیاست‘‘ کے میدان میں اکثر ناکام ہوجاتا ہے۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جن دنوں ’’تحریک نظام مصطفیٰ‘‘ بہت جوش وخروش سے جاری تھی تو رفیق باجوہ نام کے ایک صاحب بہت مشہور ہوئے۔ جلسوں میں سٹیج پر آنے کے بعد مائیک سنبھالتے تو لاہور کے بزرگوں کو عطاء اللہ شاہ بخاری یاد آجاتے۔ لیکن اسی تحریک ہی کے دوران وہ بھائی لوگوں کے ذریعے بھٹو سے ’’خفیہ ملاقات‘‘ کے لئے اسلام آباد گئے۔ لیکن انکی یہ ملاقات ’’خفیہ‘‘ نہ رہ پائی اور باجوہ ہمیشہ کیلئے گمنامی کی نذر ہوگئے۔ لہٰذا میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں عرصے سے گنڈاپور کا دورِ حاضر کے رفیق باجوہ بن جانے کا منتظر تھا۔ اب بالآخر وہ میرے خدشات کی جانب بڑھنے کو چل پڑے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو اپنی جماعت کی صوبائی صدارت سے ہٹا دیا ہے۔ ان کی جگہ جنید اکبر خان کو آگے بڑھایا گیا ہے جو اس سے قبل قومی اسمبلی کی سب سے طاقتور کمیٹی یعنی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ جنید اکبر کا تعلق مالاکنڈ سے ہے اور وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ابھرے ٹرمپ نما علی امین گنڈاپور کے خیر خواہ نہیں۔ نجی ہی نہیں بلکہ اکثر صحافیوں کے سامنے بھی ان پر تنقید سے گھبراتے نہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گنڈا پور کو تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ کی صدارت سے ہٹایا گیا تو میں نے ٹویٹر پر ایک سوال اٹھا دیا اور تحریک انصاف کے اندورنی معاملات سے بخوبی آگاہ لوگوں سے رہ نمائی کی درخواست کی۔ میں نے جاننا چاہا کہ گنڈا پور وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ پائیں گے یا نہیں۔ اگر جواب نفی میں ہے تو ان کی جگہ کون لے سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر چھائے عمران کے جاں نثاروں کو میرا سوال پسند نہیں آیا۔ اکثریت نے حسب عادت مجھے ’’اچھے‘‘ القاب سے پکارنے کے بعد جاننا یہ چاہا کہ فلاں فلاں چیف منسٹر کب تبدیل ہورہا ہے۔ لونڈے لپاڑوں کے برعکس تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگوں کی اکثریت نے عاطف خان کو ان کا متبادل بناکر پیش کیا۔ تحریک انصاف کے چند جانے پہنچانے کارکن البتہ خیبرپختونخواہ اسمبلی کے سپیکر کو علی امین کے ممکنہ متبادل کے طورپر دیکھ رہے تھے۔ مجھے جواب دینے والوں کی اکثریت اگرچہ مصر رہی کہ گنڈاپور ہی وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے۔
گنڈا پور کے بعد اور کن انصافیوں کی چھٹی ہونے والی ہے؟
نصرت جاوید کہتے ہیں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ذکر ہو تو میں ایک حوالے سے ان میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں کرتا۔ ہماری سب بڑی جماعتوں میں ’’اندرونی جمہوریت‘‘ موجود ہی نہیں۔ مسلم لیگ (نون) دربارِ جاتی امراء کے اشاروں پر لبیک کہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ہر شخص کو آصف زرداری کے ’’وژن‘‘ سے رجوع کرنا لازمی ہے اور ایسا ہی تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں مخصوص حالات کے سبب عمران کو ایسے سیاستدان کی صورت محض دیکھا نہیں بلکہ تقریباََ ’’پوجا‘‘ جا رہا ہے جس نے ’’لوگوں کو شعور‘‘ دیا ہے اور نظام کہنہ کی سیاست کے پرخچے اڑادئے ہیں۔ عمران خان میں نظام کہنہ کے پرخچے اڑانے والا دیکھنے والوں کو ذوالفقار علی بھٹو یاد نہیں۔ انہوں نے بھی 1970 کے انتخابات میں ’’پرانی سیاست دفن‘‘ کردی تھی۔ مگر 1977ء تک پہنچتے ہوئے انہیں بھی عطار کے انہی لڑکوں سے رجوع کرنا شروع کر دیا جو برطانوی سامراج کے دنوں سے ہمارے عوام کو رعایا بنائے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگاکر انہیں دوبارہ نظام کہنہ کا ویری بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ سچ مگر یہ بھی ہے کہ بھٹو فوجی آمر کے آگے جھکے نہیں۔ بھٹو شہید پھانسی پر چڑھ کر تاریخ کی نگاہ میں سرخرو ہوگئے۔ چنانچہ میری دانست میں عمران کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ 8 فروری 2024ء کے روز وہ اپنی کشش کا چیک کیش کروا چکے ہیں۔ مستقبل کے لئے اب انہیں کوئی نئی گیم لگانا ہوگی۔ اس گیم کے خدوخال نما یاں ہونے تک میں خاموش رہنے کو ترجیح دوں گا۔