افغانستان میں پاک فضائیہ نے TTP کے کن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ؟

باخبر عسکری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان کے صوبے پکتیکا میں تحریک طالبان پاکستان کے ان پکے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے جہاں پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پکتیکا میں موجود تحریک طالبان کے یہ ٹھکانے افغان طالبان حکومت کی مرضی اور جلال الدین حقانی نیٹ ورک کی مدد سے پاکستان کے اندر دہشت گرد حملوں کی پلاننگ کرتے تھے۔ اسکے علاوہ ٹی ٹی پی کے ان کیمپس میں حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجو تربیت حاصل کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا کا ضلع برمل حالیہ فضائی بمباری کے باعث ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گیا ہے، جب کہ پاک افغان امور کے ماہرین پاکستان کی اس مبینہ کارروائی کو ردِعمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

طالبان انتظامیہ کی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ 24 دسمبر کی شام پاکستان ائیر فورس نے برمل کے مضافاتی علاقوں میں بمباری کی۔

افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں 46 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر وہ مہاجرین شامل ہیں جو پاکستانی علاقے وزیرستان سے ہجرت کر کے برمل میں مقیم تھے۔ افغان طالبان نے پاکستان کو اس فضائی کارروائی کا جواب دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فضائی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جینس معلومات پر سرحدی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔ ممتاز کا کہنا تھا کہ یہ فضائی کارروائی پاکستانی شہریوں کو درپیش سیکیورٹی خطرات کی بنیاد پر کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان میں سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ برمل میں کی جانے والی کارروائی میں دہشت گرد ٹھکانوں اور خودکش بمباروں کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ نشانہ بنائے گئے مراکز میں تحریکِ طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجو تربیت حاصل کر رہے تھے۔

یہ حملہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اس علاقے میں پاکستان کی جانب سے تیسری بڑی کارروائی ہے۔ رواں برس مارچ میں بھی پاکستان نے پکتیکا اور خوست میں کارروائی کی تھی اور اسے انٹیلی جینس معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی قرار دیا تھا۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں بھی پاکستانی فضائیہ نے افغان صوبے کنڑ اور خوست میں حملے کیے تھے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جون 2014 میں کراچی ایئر پورٹ پر طالبان اور القاعدہ کے مشترکہ حملے کے ایک ہفتے بعد پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ‘ضربِ عضب’ شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔ زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے ان شدت پسندوں کو شمالی وزیرستان سے بے دخل کیا گیا، جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے شدت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان کے سرحدی صوبوں کی جانب منتقل ہونا پڑا۔

سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ اس کارروائی کے بعد شمالی اور جنوبی وزیرستان کے شدت پسند افغان صوبے پکتیکا، خصوصاً ضلع برمل میں مقیم ہوئے جب کہ سوات، باجوڑ، مہمند اور خیبر سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغان صوبوں کنڑ اور ننگرہار منتقل ہوئے۔ ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب ‘انقلابِ محسود’ میں 2014 کے آپریشن کے بعد شدت پسندوں کی افغانستان ہجرت اور برمل میں آباد ہونے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کتاب میں ’دورانِ ہجرت افغانستان میں محسود مجاہدین پر امریکی چھاپوں کی روداد‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں نور ولی محسود لکھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی تنظیم نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں ترک کر دی تھیں لیکن پاکستان میں کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔

کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی دسمبر 2007 میں تشکیل سے قبل بھی شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسند پکتیکا اور دیگر صوبوں میں افغان سیکیورٹی فورسز اور نیٹو اتحادی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں فعال رہے تھے۔ افغانستان کے یہ علاقے شروع سے ہی طالبان کی شاخ حقانی نیٹ ورک کے زیرِ اثر ہیں جس کے موجودہ رہنما سراج الدین حقانی ہیں اور وہ اس وقت افغانستان کی انتظامیہ کے وزیرِ داخلہ ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار حسن خان کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے حالیہ حملے کئی اہم واقعات سے جڑے ہیں۔ انکے بقول، پکتیکا میں فضائی حملہ جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے حالیہ حملے کے چند دن بعد کیے گئے، جس میں 16 پاکستانی سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔

حسن خان نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پکتیکا میں حملہ ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور افغانستان سے منسلک چیلنجز کے ردِ عمل میں کیا گیا ہے۔

پاک افغان امور کے ماہرین کے مطابق، افغان طالبان میں ٹی ٹی پی کی حمایت کے حوالے سے واضح تقسیم پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کو ٹی ٹی پی کے لیے مضبوط حمایت فراہم کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ حسن خان کا کہنا ہے کہ "حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے باعث ٹی ٹی پی کے اراکین کو افغانستان بھر میں آزادانہ نقل و حرکت حاصل ہے۔ تاہم، ان کے جنگجو زیادہ تر افغانستان کے علاقوں جیسے خوست، پکتیا، پکتیکا، اور غزنی میں مرتکز ہیں، جو حقانی نیٹ ورک کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔”

ان کے بقول، ماضی میں جب ٹی ٹی پی اندرونی اختلافات اور گروپوں میں تقسیم کا شکار تھی، تو حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں نے ان اختلافات کو ختم کیا اور پاکستان اور افغانستان دونوں میں چھوٹے گروپوں کو مرکزی ٹی ٹی پی میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔

2 ماہ سے سڑکوں کی بندش: پارا چنار جیل کی صورت اختیار کر گیا

ٹی ٹی پی اب نئی حکمتِ عملی کے تحت بلوچستان کے پختون اضلاع ژوب اور قلعہ سیف اللہ کے راستے شدت پسندوں کو پاکستان میں داخل کروا رہی ہے۔ یہ شدت پسند خیبرپختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، اور دیگر علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے سرحد پار سے آنے والے کئی شدت پسندوں کو نشانہ بھی بنایا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری ضروری ہو گئی تھی تاکہ پکتیکا میں موجود ان کا نیٹ ورک تباہ کیا جا سکے۔

Back to top button