پاکستانی سیاست کے باغی، داغی اور چراغی کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اسوقت باغی، داغی اور چراغی ٹائپ کے سیاستدان متحرک ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کون سی ٹائپ سے تعلق رکھنے والے سرخرو ہوتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو  50 سال پہلے یہاں پائے جانے والے باغیوں کی اکثریت کمیونسٹ، قوم پرست، جمہوریت پسند اور صوبائیت پسند ہوتی تھی۔ اس زمانے میں نظریاتی جنگ دلائل سے شروع ہو کر لڑائی کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ تب کے کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا خیال تھا کہ اس دھرتی کی مٹی سرخ انقلاب کیلئے موزوں تر ہے، انکے انقلابی ارادوں کی وجہ سے انہیں ریاست باغی قرار دیتی تھی اور یوں وہ ریاستی عتاب کا شکار ہوتے رہے۔ جب جب مارشل لاء آئے، جمہوریت کیلئے آواز اٹھانے والے باغی ٹھہرے، کبھی مولوی تمیز الدین، کبھی سہروردی، کبھی نواب زادہ نصراللہ، کبھی بھٹو، کبھی بے نظیر، کبھی نواز شریف اور اب عمران خان باغی کہلائے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کتنے اقتدار کی خاطر جمہوریت پسند بنے تھے اور کتنے واقعی جموریت کیلئے اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر اور جاوید ہاشمی جیسے باغیوں کو ہم نے جمہوریت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن اکثر لوگ نظریاتی طور پر جمہوریت نہیں بلکہ طاقت کے کھیل کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں، ہماری انتخابی سیاست میں کوئی اصلی اور نسلی باغی اب خال خال ہی نظر آتا ہے، لیکن اقتدار کے لیے جھولی پھیلائے طاقت کے شیدائی اکثر قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں، آج کے سیاسی منظر نامے پر چند گنے چنے لوگ ہی نظریاتی طور پر کومٹڈ نظر آتے ہیں۔ کسی کو پسند آئے نہ آئے مگر محمود اچکزئی کا نام بھی اس فہرست میں آتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے بھی جمہوریت کی بحالی کیلئےطویل جدوجہد کی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کے بارے میں کئی لوگ بغض اور نفرت سے بھرے ہیں، حالانکہ ان کے نظریات جمہوریت سے وفا پر مبنی ہیں۔ نون لیگ میں اسحاق ڈار سے سو اختلافات ہو سکتے ہیں مگر وہ ہمیشہ سیاست میں لڑائی کی بجائے صلح کے قائل ہیں، وہ جمہوری اقدار نبھانے کے حامی ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ باغی کے بعد داغی کا نمبر آتا ہے۔ داغی کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتا ہے، اسے جہاں سے بھی مفاد مل جائے وہ ادھر جانے میں تاخیر نہیں کرتا۔اصل داغی وہ لوٹے ہوتے ہیں جو جمہوریت کی رخصتی کے بعد آنے والی حکومتوں میں سینہ تان کر وزیر اور مشیر بن کر بیٹھ جاتے ہیں، لہٰذا جہاں مارشل لائوں کی حمایت کرنے والے ججوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے وہاں جرنیلوں کے علاوہ ان سیاست دانوں اور ان کے بڑے بڑے حامیوں کو بھی کم از کم علامتی سزائیں ضرور ملنی چاہئیں تاکہ جمہوریت اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والے داغی کہلائیں اور معاشرے میں دندناتے ہوئے سرعام جمہوریت، سیاست اور آئین کو برا بھلا نہ کہہ سکیں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت، سیاست، صحافت اور عدلیہ کا مستقبل تباہ کرنے والے دراصل یہی داغی ہیں جو کسی اصول، کسی نظریے، کسی اصول کے قائل نہیں۔ یہ خود کو ایک تھپڑ  پڑنے پر چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ یہ اپنے مخالف سے مل بھی جاتے ہیں اور اپنی جعلی بہادری کا سکہ بھی جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 9 مئی 2024 سے پہلے اور بعد میں پاکستان سے بھاگ جانے والے سب لوگ داغی ہیں جو محفوظ مقامات پر بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہیں، انہیں رتی بھر پروا نہیں کہ گولہ ان کے محبوب کو مضروب کرتا ہے یا مقابل کو۔

لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق سب سے خطرناک لوگ چراغی ہیں جو اپنے محبوب قائد کو مار کر اس کے مزار پر چراغ جلانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ چالاک اور عیار لوگ ہیں جنہیں اپنے محبوب قائد کی زندگی، اس کی قید یا مشکلات سےکوئی غرض نہیں۔ اس حوالے سے علیمہ خاں ایک واضح موقف رکھتی ہیں، وہ صرف اور صرف اپنے بھائی کی رہائی کی بات کرتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے باغیانہ پیغامات بھی وہی دیتی ہیں۔ خیر ذکر تو چراغیوں کا ہو رہا تھا۔ ان چراغیوں کو علم ہے کہ جس دن عمران خان جیل سے باہر آ گیا ان چراغیوں کے چراغ بجھ جائین گے۔ ان میں کئی ستم ظریف تو ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ خان جیل سے کبھی بھی باہر نہ آئے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خان کا تو مزار بن جائے اور اس پر وہ اپنے اپنے چراغ جلاتے رہیں۔ عمران خان کے چراغی ساتھی نہ تو اسے مصالحت کرنے دینگے اور نہ ہی کبھی جیل سے باہر آنے دیں گے۔ وہ نہیں چاہتے کہ خان دوبارہ وزیر اعظم بنے کیونکہ ایسا ہوا تو کپتان نے چراغیوں کو فوراً پہچان لینا ہے اور انکی چھٹی کروا دینی ہے۔

کیا پاکستان، امریکہ اور چین کی ٹیرف وار سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟

سہیل وڑائچ کے مطابق کہنے والے کہتے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کو باغیوں، پاگلوں اور جنونیوں نے تشکیل دیا ہے۔ لیکن اسی بات کا دانشورانہ بیانیہ یہ ہے کہ آ ج کی دنیا کو تخلیقی اقلیت نے تشکیل دیا ہے۔ اگر سقراط ،نیوٹن اور سر سید جیسے روایتی سوچ سے ہٹ کر سوچنے والے بڑے لوگ نہ ہوتے اور وہ مروجہ دقیانوسی روایات سے بغاوت نہ کرتے تو شائد آج کی دنیا وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ نہ سائنس ہوتی، نہ جمہوریت ہوتی اور نہ انسانوں کی زندگیوں میں سہولتوں کا وہ طوفان آتا جو گزشتہ کسی دور میں بھی انسانی سوچ میں نہیں آ سکتا تھا۔ باغی اعلیٰ ترین ہوتے ہیں مگر بغاوت نظریے کی تابع ہوتی ہے، جمہوریت کے خالص نظریے کیلئے بغاوت ہو تو باغیوں کو سلام ورنہ داغیوں کی وجہ سے ہم کئی بار داغدار ہو چکے ہیں، اور چراغیوں کو تو دور سے سلام۔ اس قوم اور ریاست نے اگر زندہ رہنا ہے تو چراغیوں کے چراغ ہمیشہ کیلئے بجھانے ہوں گے۔۔۔۔

Back to top button