12 مئی 2007 کو کراچی میں خون کی ہولی کس نے اور کیوں کھیلی؟

کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریلی میں خون کی ہولی کھیلنے والے سانحہ 12 مئی کے ملزمان 17 سال گزرنے کے باوجود قانون کے گرفت سے باہر ہیں۔سابق میئر کراچی وسیم اختر اور سابق رکن صوبائی اسمبلی کامران فاروقی سمیت 60 سے زائد متحدہ کارکنان کے خلاف سانحہ 12 مئی کے 19 مقدمات سرد خانے کی نذر کردیئے گئے۔ 17 سال گزر جانے کے باوجود سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق تفتیشی حکام اور گواہوں کی عدم دلچسپی کے باعث 17 سال مکمل ہونے کے باوجود سانحہ 12 مئی کے مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے 50 سے زائد افراد کے اہلخانہ تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔ وکلا اور ملزمان کے تاخیری حربوں کے باعث 14 سے زائد مقدمات کا ٹرائل بھی مکمل نہیں کیا جاسکا۔ 7 کے قریب مقدمات میں نومبر 2019ء کو وسیم اختر سمیت24 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ تاہم اب تک مقدمات میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے جاسکے۔تفتیشی حکام کی عدم دلچسپی اور ٹھوس ثبوت و شواہد پیش نہ کیے جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسیم اختر سمیت 24 ملزمان ضمانتوں پر آزاد ہوچکے ہیں۔ اکثر سماعتوں پر گواہوں کو پیش نہ کیے جانے کے سبب ٹرائل مکمل نہیں کرایا جاسکا۔ تاہم متحدہ ایم پی اے کامران فاروقی، محمد عدنان عرف بالو سمیت 20 سے زائد مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔پولیس ملزمان کو کئی بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ جس کے باعث مقدمات کی تفتیش بھی آگے نہیں بڑھ سکی جبکہ سانحہ 12 مئی کے دوبارہ کھولے گئے 12 مقدمات میں بھی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ان میں سے 2007ء کو تھانہ صدر میں درج ایک مقدمہ میں 4 ملزمان عبدالباری کاکڑ، حبیب اللہ، مشتاق اور وکیل خان مفرور ہیں۔ مقدمے میں پولیس نے پیپلزپارٹی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کے 400/500 نامعلوم کارکنوں کو شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ تھانہ ایئرپورٹ میں درج 7 پرانے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ مگر اب تک تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں ہوسکے ہیں۔
عدالتوں میں بیانات ریکارڈ کرانے والے گواہوں نے ملزمان کو شناخت بھی کیا اور واقعے کی سی ڈیز سمیت دیگر شواہد بھی پیش کیے گئے۔ گواہوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ 12 مئی 2007ء کو ملزمان نے متحدہ کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر شہر میں جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی تھی۔ اس دوران فائرنگ سے کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے۔ گواہوں میں شامل پولیس اہلکار بیان دے چکے ہیں کہ گرفتار ملزمان نے تفتیش میں اعتراف جرم بھی کیا ہے اور یہ بات بھی تسلیم کی کہ انہوں نے متحدہ کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر شہر میں جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی تھی۔
واضح رہے کہ کراچی میں 12 مئی 2007ء کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا استقبال روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا اور 50 سے زائد شہریوں کو تشدد اور فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ جس پر پولیس نے تھانہ ایئرپورٹ میں متحدہ پاکستان کے رہنما اور سابق میئر کراچی وسیم اختر سمیت 67 ملزمان کو نامزد کر کے 7 مقدمات میں تقسیم کیا تھا۔
مودی سرکار پاکستان کے ساتھ سیز فائر پر مجبور کیوں ہوئی؟
ان 7 مقدمات کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ 12 مئی 2007ء کے 65 اے کلاس مقدمات کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ جس پر 65 میں سے 12 مقدمات دوبارہ کھولے گئے۔ جو گڈاپ، بہادر آباد، فیروزآباد اور ایئرپورٹ تھانوں میں درج ہیں۔ ان مقدمات میں متحدہ دہشت گرد مرزا نصیب بیگ عرف رضوان چپاتی اور رئیس مما گرفتار اور جیل میں ہیں۔ اس وقت جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں سانحہ 12 مئی کے 19 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جن میں سے 7 پرانے مقدمات میں وسیم اختر، عمیر صدیقی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی جاچکی اور گواہوں کو طلبی کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔ جبکہ ری اوپن 12 مقدمات میں تاحال پیش رفت سامنے نہیں آسکی