نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو ایبٹ آباد میں کس نے چھپا رکھا تھا ؟

القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی دو مئی 2011 کو ملٹری اکیڈمی کاکول کے قریب ایبٹ آباد میں ہلاکت پر انٹر سروسز انٹیلی جنس کی کارکردگی اور دنیا کے مطلوب ترین شخص کی حیران کن طور پر پاکستان میں موجودگی پر کئی سوالات اُٹھائے گئے جنکے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے دہائیوں پرانے تعلقات ایسی خرابی کا شکار ہوئے جو اب تک ٹھیک نہیں کئے جا سکے۔
یہ واقعہ برسوں پاکستان اور امریکہ تعلقات پر اثرانداز ہوتا رہا اور پنڈی والوں پر ڈبل گیم کھیلنے کے الزام کے علاوہ ان سے ڈو مور کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے پر نہ صرف داخلی سطح پر پاکستان میں بے چینی پائی گئی بلکہ خارجی محاذ پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکی اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کئی سال سے تعاون جاری تھا، تاہم امریکہ کی یکطرفہ کارروائی پر پاکستان نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
پاکستان میں عوامی اور سیاسی حلقوں نے اس واقعے کو پاکستان کی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا جب کہ سول اور عسکری قیادت کو بھی اس معاملے پر کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں خصوصی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جس کی رپورٹ تاحال عام نہیں کی گئی۔
واقعے کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جہاں سیکیورٹی اداروں کے نمائندوں نے اراکینِ پارلیمنٹ کو اس معاملے پر بریفنگ بھی دی۔ اجلاس میں حساس ادارے کے سربراہ کو اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے سخت ترین سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی پر اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس احمد شجاع پاشا نے استعفے کی بھی پیش کش کی جسے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مسترد کر دیا۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک دو مئی 2011 کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن پوری پاکستانی قوم کا مورال ڈاؤن تھا اور ظاہر ہے کہ فوج کے اندر بھی اس واقعے پر مایوسی پائی جاتی تھی۔ آصف ملک کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی تھی۔ ان کے مطابق اُسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی ‘سی آئی اے’ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی ‘آئی ایس آئی’ کے درمیان تعاون نائن الیون کے بعد سے ہی جاری تھا۔
یاد رہے کہ ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سمیت افواجِ پاکستان کی کئی تنصیبات ہیں جب کہ جس کمپاؤنڈ میں اُسامہ بن لادن رہائش پذیر تھے وہ پی ایم اے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان نائن الیون کے بعد کئی معاملات پر تعاون کے باوجود بداعتمادی موجود رہی۔اُن کے بقول نائن الیون کے بعد پاکستان نے شدت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کو تیز کیا تاہم اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے ‘ڈو مور’ کے مطالبے بھی سامنے آتے رہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کو پاکستان کا تعاون حاصل رہا ہے جب کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب القاعدہ رہنما فرار ہو کر پاکستان آ گئے تو اُن کی اکثریت کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔
البتہ، زاہد حسین کہتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کے خلاف امریکہ کے یکطرفہ آپریشن کی وجہ سے پاکستان کو خفت اُٹھانا پڑی اور دونوں ملکوں کے تعلقات بھی متاثر ہوئے۔اُن کے بقول اس واقعے کے بعد پاکستان پر یہ الزامات بھی لگتے رہے کہ اس نے شدت پسند تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی۔
تاہم پاکستان حکام کا یہ مؤقف رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے سیکیورٹی اہل کاروں اور عام شہریوں کو بھاری قیمت چکانا پڑی اور لگ بھگ 70 ہزار پاکستانی اس جنگ کے دوران ہلاک ہوئے۔ لہذٰا دنیا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان اور امریکہ میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے نہ صرف باہمی تعلقات متاثر ہوئے بلکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کر دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے مارے جانے اور القاعدہ کو مبینہ شکست دینے کے باوجود عالمی برادری کا دباؤ پاکستان پر کم نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے سے متعلق ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ‘ایف اے ٹی ایف’ نے 2018 سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا۔
جنرل آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اور اس کی قربانیوں سے دنیا صرفِ نظر کرتی رہی ہے۔ اُن کے بقول پاکستان نے امن کے حصول کے لیے دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کیے۔ کیونکہ خطے میں امن پاکستان میں امن کی ضمانت ہے۔
سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ملٹری ٹو ملٹری 2011 تک بہت اچھے تھے۔ تاہم ایبٹ آباد میں امریکہ کی یکطرفہ کارروائی اور بعدازاں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے سے پاکستانی فوج میں مایوسی بڑھی۔
خیال رہے کہ 26 نومبر 2011 کو پاک، افغان سرحد کے قریب سلالہ کے مقام پر پاکستانی اور نیٹو افواج کے درمیان مبینہ جھڑپ میں 28 پاکستانی سیکیورٹی اہل کار شہید ہو گئے تھے۔ پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کر کے پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا۔پاکستان نے احتجاجاً نیٹو سپلائی بھی کئی ماہ تک معطل کر دی تھی۔ وڑائچ کے خیال میں ایبٹ آباد آپریشن سے پاکستان کو عالمی سطح پر خفت اٹھانی پڑی لیکن جنرل آصف یاسین ملک ان واقعات کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یکطرفہ امریکی کارروائی بظاہر ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ کیوں کہ اُن کے بقول امریکی صدر اُسامہ بن لادن کے خلاف اس کارروائی کو اپنے دوبارہ انتخاب کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ان کے بقول اُسامہ بن لادن کی اس علاقے میں موجودگی کی ‘لیڈ’ پاکستان کے خفیہ اداروں ہی نے امریکہ کو دی تھی۔
ہم افواج پاکستان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں : وزیر اعظم آزاد کشمیر
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ القاعدہ کی جڑیں پاکستان میں کمزور ہوئی ہیں اور مستقبل میں اس کے منظم ہونے کے امکانات بھی کم ہیں۔ تاہم القاعدہ کا نظریہ اور سوچ اب بھی بعض کالعدم جماعتوں اور تنظیموں کی شکل میں پاکستان میں موجود ہے جس سے نمٹنا ریاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔اُن کے بقول دولتِ اسلامیہ (داعش) گو کہ افغانستان میں زیادہ فعال ہے، تاہم پاکستان کے لیے یہ بدستور ایک خطرہ ہے۔ کیوں کہ اس میں زیادہ تر وہ انتہا پسند شامل ہیں جو پہلے کالعدم تحریکِ طالبان کا حصہ تھے۔