9 مئی کے کیسز میں سینکڑوں جعلی ضمانتیں دینے والا فراڈیا کون ہے؟

پاکستان کے عدالتی نظام بارے اکثر دلچسپ خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ کہیں کوئی فیصلہ سزا پوری ہونے کے بعد سنایا گیا تو کہیں اس کے فیصلے کی باری ہی مرنے کے بعد آئی۔ لیکن لاہور میں اس وقت پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا ہے اور وہ یہ ہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں سینکڑوں افراد ضمانت کروانے کے بعد غائب ہو چکے ہیں اور ٹرائل کا سامنا نہیں کر رہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان سب کا ضمانتی ایک ہی شخص تھا جو اب غائب ہو چکا۔
عام طور پر کسی ملزم کی ضمانت کوئی دوسرا شہری دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو فی الحال رہا کیا جائے اگر یہ عدالت میں مقدمے کا سامنا نہیں کرے گا تو اس کی باز پرس ضمانت دینے والے شخص سے ہو گی۔ اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق 17 جنوری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں صورت حال تب دلچسپ ہو گئی جب ایک ملزم کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر اس کے ضمانتی کو طلب کیا گیا لیکن وہ بھی حاضر نہ ہوا۔ جب عدالت نے پولیس اور پراسیکیوشن سے اس بابت استفسار کیا تو پولیس نے عدالت کے روبرو ایک رپورٹ رکھی جس میں بتایا گیا کہ محمد علی نامی شہری نے لگ بھگ تین سو افراد کی ضمانتیں کروائی ہیں جو کہ بنیادی طور پر جعلی ضمانتیں ہیں۔ عدالت نے رپورٹ کے بعد حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو اس شخص کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی اور ریمارکس دیے کہ ’جس شخص کی ضمانت دی گئی وہ تو اس سے بڑا ملزم ہے۔ اس کو پکڑ کر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔‘
اسی عدالت میں ایک نعمان نامی ضمانتی نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ انہوں نے سرے سے کسی کی ضمانت دی ہی نہیں تھی اور ان کا شناختی کارڈ اور رجسٹری کی کاپی کا غلط استعمال ہوا ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس شہری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
190 ملین پاونڈز کرپشن نے عمران کا بھیانک چہرہ کیسے بے نقاب کیا ؟
پاکستانی عدالتوں میں جعلی ضمانتیں دینے کا کلچر پرانا ہے، تاہم اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر اتنے اہم کیسز میں جعلی ضمانتوں کا استعمال حیران کن ہے۔ پراسیکیورٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے بتایا کہ ’ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے بار کی مدد کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر ایسے کاموں میں وکلا بھی ملوث ہوتے ہیں۔ جو کرائے پر ضمانتی لے آتے ہیں۔ لیکن اب سارا جوڈیشل سسٹم آٹومیشن کی طرف جا رہا ہے، ہم اے آئی کو بھی سسٹم میں لا رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر چیز آن لائن ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسے افراد پھر فراڈ نہیں کر سکتے۔ جب عدالت کی کارروائی مکمل طور پر ڈیجیٹل ہو جائے گی تو ملزمان، مدعیان، گواہان اور ضمانتیوں کا ریکارڈ بھی اسی مناسبت سے کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا تو پھر اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ابھی تو صرف مینجمنٹ سسٹم آن لائن ہوا ہے۔ باقی کافی کچھ ابھی مینوئل چل رہا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘ 9 مئی کے 300 سے زائد ملزمان کی جعلی ضمانتیں داخل کرنے کے واقعے بارے انکا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ پولیس کے ساتھ مل کر ان افراد کا سراغ لگائے جنہوں نے جعلی ضمانتیں دیں اور انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف جعل سازی کے مقدمے درج کیے جائیں گے۔