بھینسے اور بکرے کی خوفناک لڑائی میں جیت کس کی ہو گی؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اپنے ایک استعاراتی کالم میں فوج کو بھینسے اور عمران خان کو بکرے سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بکرا جنگل کے مرکز میں بار بار احتجاج کے ذریعے بھینسے کو مسلسل اشتعال دلا رہا ہے تاکہ وہ غصے میں آ کر جانوروں کی شہری حکومت ہی ختم کر دے۔ ایسا ہونے سے غیر ملکی جنگلوں میں یہ پیغام جائے گا کہ ایشیا کے اس پاک جنگل میں ظلم و ستم کا جابرانہ نظام مسلط ہے اور یہاں جانوروں کی نہیں بلکہ ایک طاقتور اور مسلح جتھے کی حکومت ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر بھینسے نے یہ غلطی کر لی تو ہمارے جنگل کے حکمرانوں کے خلاف باقی سارے جنگلوں کے حاکم بھی اکٹھے ہو جائیں گے اور یوں ہمارے پاک جنگل میں بیرونی مداخلت شروع ہو جائے گی جو کہ بکرے کا اصل ایجنڈا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انہیں بھینسے سے بہت ڈر لگتا ہے لیکن آج کل بھینسے کا بکرے کے ساتھ میچ پڑا ہوا ہے جو سخت مزاحمت کر رہا ہے۔ آئیے سہیل وڑائچ کی جنگ میں شائع ہونے والی پوری تحریر سنتے ہیں:
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایشیا کے گھنے جنگلوں میں دنیا کی سب سے منفرد اور عجیب جنگ ہوئی، ویسے تو دنیا بھر کے جنگلوں میں سب سے طاقتورہی بادشاہ ہوتا ہے چونکہ شیر سب سے طاقتور جانور ہے اس لئے جنگل کا بادشاہ ہمیشہ سے شیر ہی ہوتا ہے، مگر نہ سارے جنگل ایک جیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی ساری دنیا ایک جیسی ہے، اسی طرح سارے شیر بھیبایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔
اس جنگل پر افتاد یہ آن پڑی کہ بھینسوں نے شیروں کو اپنا ہدف بنا لیا، جو بھی شیر بادشاہ بنتا، بھینسے اسکے خلاف متحد ہو جاتے اپنے سینگوں کو ہتھیار بنا کر بکرے، بکریوں اور بھیڑوں کو یا تو ڈرا لیتے یا پھر اپنا ہمنوا بنا لیتے۔ بھینسے اپنے اتحاد اور نظم وضبط سے اتنے مضبوط ہو گے کہ شیروں میں سخت نفاق پیدا ہو گیا، وہ آپس میں ہی لڑنے لگے۔ ایک دوسرے سے نفرت میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ شیروں میں مل بیٹھنے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے یا مزاحمت کرنے کی کوئی رمق باقی نہ رہی۔ شیر اپنی کچھاروں تک محدود ہو گئے اور جنگل میں بھینسوں کا راج قائم ہوگیا۔
اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شیر بھینسوں کے ہاتھوں پھانسی چڑھا، کوئی الزامات کا شکار ہوا تو کوئی قید بھگتتا رہا۔ بھینسوں کی طاقت اور اتحاد مثالی تھا۔ اب شیروں نے دھاڑنا بند کر دیا اور بھینسوں کے ہمنوا بن گئے، کچھ مظلوم شیر تھے اور کچھ شیر اقتدار میں زیرنگین شراکت دار بن گئے لیکن اصل اقتدار بھینسوں کا ہی تھا، اب شیر یا بکری ان کے سامنے دم نہیں مار سکتےتھے۔ ایک دن بھینسوں نے ایک خفیہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ گو شیروں کے دانت نکل گئے ہیں مگر یہ کسی بھی دن پھر خطرہ بن سکتے ہیں لہذا اس کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔
ایسے میں فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ شیروں میں ایک بکرے کو شیر کا رنگ و روپ دیکر شامل کر دیا جائے۔ بھینسوں کو یہ تجویز بڑی پسند آئی، چنانچہ اس بکرے کو شیروں جیسی تربیت دی گئی، بکریوں اور بھیڑوں کو اس کے ساتھ ملایا گیا، بچے کچھے شیروں کو اس بکرے کے ہاتھوں بدنام کیا گیا ،اندھے گیدڑ قاضی تھے، وہ بھی بھینسوں کے ساتھ شیروں کے شکار میں آگے بڑھ بڑھ کر وار کرتے رہے، انہیں پہلے سے ہی علم تھا کہ بھینسے ہی جیتیں گے، بھینسوں کا پلان کامیاب رہا اور شیر ایک ایک کر کے گرتے رہے، کچھ زخمی ہوئے کچھ خوفزدہ ہو کر ساتھ مل گئے اور باقی پیچھے ہٹ گئے۔
بالآخر شیروں کا لباس پہنے یہ بکرا جنگل میں اکیلا ہی رہ گیا۔ اس کی ’’میں میں‘‘ کا ہر طرف چرچا تھو۔ لاڈلے بکرے کو بڑے چاؤ اور پیار سے تخت شاہی پر بٹھا دیا گیا لیکن اس کے پیچھے اصل طاقت تو بھینسوں کی ہی تھی۔ بکرا اور بھینسے ملکر چین کی بانسری بجانے لگے۔ شیر مٹ چکے تھے، گیدڑ قاضی کے ساتھ مل چکے تھے اور بھیڑ بکریاں اب بکرے کے نغمے گا رہی تھیں، ایسے میں بھینسے کے گروہ میں تشویش پیدا ہونا شروع ہو گئی، انہیں لگا کہ ان کی مکمل حمایت اور فیض کے باوجود بکرے سے جنگل کا نظام چل نہیں رہا۔
بھینسوں کا موقف تھا کہ جنگل سے چارہ اور سبزہ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور قریبی جنگلوں سے دوستی کی بجائے مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ خلیجی جنگلوں کے بادشاہوں کو بھی شکایات پیدا ہونے لگی تھیں۔ ایسے میں بھینسے کو دوبارہ شیروں کی ضرورت پڑ گئی، شیر لاغر اور کمزور تھے مگر شہہ ملنے پر وہ بھینسوں کی رتھ پر سوار ہو گے اور ایک بڑا حملہ کر کے حاکم بکرے کو بادشاہت سے اتار پھینکا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھینسے اور بکرے کی ڈائرکٹ جنگ شروع ہو گئی۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ بکرے کو شکار کے لیے شیر جیسی حکمت عملی نہیں آتی۔ شیر اچھے وقت کا انتظار کیا کرتے ہیں اور بھینسے پر حملہ تب کرتے ہیں جب اسے اکیلا کر لیں۔ بکرا یہ حکمت عملی نہیں سمجھ سکا چونکہ اسے اپنے طاقت ور سینگوں کے فیض کافی پر ناز تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بھیڑوں اور دنبوں کے جو غول اس کے ساتھ ہیں وہ بھینسے کو مشکل میں ڈال دیں گے، اس نے بھیڑوں اور دنبوں کے ذریعے جنگل میں اکٹھ کرنے شروع کر دیئے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بھینسے کے سامنے سرخ کپڑا لہرائیں تو وہ غصے میں پاگل ہو جاتاہے۔ چناچہ بکرے نے بھی بھینسے کے سامنے اپنی مسلسل ’’میں میں‘‘ سے سرخ کپڑا لہرانا شروع کر دیا ۔بکرے کا خیال تھا کہ بھینسا غصے سے پاگل ہو کر غلطیاں کرے گا۔ لیکن بکرے کو سرخ کپڑا لہرانے کے باوجود بار بار شکست ہوتی رہی اور بھیڑوں اور دنبوں کے ریوڑ بھی اسکے کام نہ آئے۔ ابتلا کا شکار بکرے کو مغربی اور خلیجی جنگلوں سے بھی کوئی مدد نہ ملی تو اس نے آخری کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور بھینسوں کو جنگل کے مرکز میں ایک فائنل کال دے ڈالی۔ لیکن اسکا نتیجہ بھی شکست کی صورت میں نکلا اور بکرے کی کال پر اکٹھے ہونے والی بھیڑیں اور دنبے اپنی رانی بی بی سمیت دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گے۔
حکومت نے بیرسٹر گوہر کو سنگجانی میں بیٹھنے کے بدلے عمران خان کی رہائی کی پیش کش کی تھی : علیمہ خان
لیکن بکرا ابھی تک بھینسوں کو اشتعال دلانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس انتظار میں ہے کہ وہ کوئی غلطی کریں۔ وہ بھینسے کو اتنا بھڑکانا اور غصہ دلانا چاہتا ہے کہ وہ جنگل کے جانوروں کی شہری حکومت سرے سے ہی ختم کر دے اور اپنا جبر کا نظام نافذ کر دے تاکہ غیر ملکی جنگلوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ایشیا کے اس جنگل میں ظلم و ستم کا جابرانہ نظام مسلط ہے۔ اگر بھینسے سے یہ غلطی واقعی ہو گئی تو اس جنگل کے حاکم کے خلاف باقی جنگلوں کے حاکم بھی اکٹھے ہو جائیں گے اور پھر ہمارے پاک جنگل میں بھی بیرونی مداخلت شروع ہو جائے گی اس لیے بھینسے کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا”۔
سہیل وڑائچ اپنی تحریر کے اخر میں بتاتے ہیں کہ یہ کہانی بہت پرانی ہے اور مجھے ایک بہت ہی شکستہ اور پھٹی پرانی کتاب میں پڑھنے کو ملی۔ انکے مطابق اس کتاب کا آخری صفحہ پھٹا ہوا تھا اس لئے کہانی کا انجام پتہ نہ چل سکا۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ اس طرح کی لڑائیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔