پی ٹی آئی نے میدان جنگ سے فرار کی نئی تاریخ کیوں اور کیسے لکھی؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مین سٹریم سیاسی جماعت نے حکومت کے خلاف فائنل احتجاج کے لیے اسلام آباد میں اکٹھا ہونے کے بعد پولیس ایکشن شروع ہونے پر جوتیاں اٹھا کر بھاگنے کی شرمناک تاریخ رقم کی ہے جس کا سہرا عمران خان کی تیسری اہلیہ بشری بی بی اور انکے ہمراہی علی امین گنڈا پور کے سر باندھا جا رہا ہے۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ یہ بات تحریک انصاف کے پرستاروں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کہ جب اسلام آباد میں داخلے کے بعد ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ جانے کے باوجود بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور رات گے ”محاذ جنگ“ چھوڑ کر پیر سوہاوہ کی پہاڑی سے ہری پور کی جانب ”فرار“ ہوئے تو اسکی وجہ حکومت کا خوف نہیں تھا۔ پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری یا خدانخواستہ کسی پرتشدد حملے کی بجائے ان دونوں کو سب سے ذیادہ خوف اپنے ساتھ لائے گے قافلے سے تھا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ سے احتجاجی قافلہ ایا تو بشری اور گنڈاپور کی قیادت میں تھا لیکن اسلام آباد میں داخل ہو جانے کے بعد تحریک انصاف کے ”انقلابی“ کارکنوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ وہ مصر رہے کہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اپنی محفوظ گاڑیوں سے باہر نکلیں اور ہجوم کی قیادت سنبھال کر پیدل چلتے ہوئے ڈی چوک میں قافلے سمیت داخل ہوجائیں۔ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اگر اپنے ساتھ لائے ہجوم کی خواہش کے مطابق اپنی گاڑیوں سے نکل کر ڈی چوک داخل ہونے کی کوشش کرتے تو شاید وہاں تعینات پولیس اور رینجرز انہیں شدت سے روکنے کی کوشش نہ کرتے۔ بشریٰ بی بی بہرحال سابق وزیر اعظم اور ان دنوں پاکستان کی مقبول ترین سیاسی شخصیت کی اہلیہ ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور حساس ترین صوبہ خیبرپختونخوا کے منتخب وزیر اعلیٰ ہیں۔ خدانخواستہ انہیں روکنے کی کوشش میں کوئی انہونی ہوجاتی تو ملک بھر میں ویسے ہی ہنگامے پھوٹ پڑتے جو دسمبر 2007 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد رونما ہوئے تھے۔ علی امین گنڈاپور کی وفاقی پولیس کے ہاتھوں ”پٹائی“ کے مناظر خیبرپختونخوا میں یہ سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں آسانی فرا ہم کرتے کہ ”پنجابی قیادت“ نے پشتونوں کی منتخب قیادت کا ”احترام“ نہیں کیا۔ علی امین کے ساتھ کسی انہونی سے خیبرپختونخوا کو ایک ”شہید“ مل جاتا۔ لیکن خون دینے کی بجائے دودھ پینے والے لیلی اور مجنوں یعنی بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور نے نہایت دانش مندی سے ”میدان جنگ“ سے کھسک جانے کا فیصلہ کیا۔
نصرت کہتے ہیں کہ عاشقان عمران اس بارے وشرمندگی محسوس کریں گے لیکن جنگ کے دوران جب آپ اپنے دشمن کو للکارتے ہیں تو جواب میں آپ کو میدان میں مضبوطی سے کھڑے بھی رہنا ہوتا ہے۔ سیاسی قیادت کی چند ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن سے اجتناب بحرانوں کے فیصلہ کن مراحل میں ممکن نہیں۔ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کی پسپائی کو دانش مندانہ عمل کہنے کے باوجود میں یہ یاد دلانے سے باز نہیں رہ سکتا کہ 24 نومبر کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت ہی نے ہیجان بھڑکایا تھا۔ بغیر کسی تیاری کے عمران خان نے اڈیالہ جیل سے یہ حکم جاری کر دیا کہ اس تاریخ کو ملک بھر سے ان کے چاہنے والے اسلام آباد پہنچ جائیں اور ان کی رہائی تک اس شہر میں دھرنا دیے بیٹھے رہیں۔
اپنے چاہنے والوں کو ”ڈواور ڈائی“ کے الفاظ کے ساتھ آخری معرکہ کو اْکساتے ہوئے بانی کو یاد ہی نہ رہا کہ صرف ایک ماہ قبل بھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ایک بڑا لشکر لے کر اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس نے اس لشکر کو اٹک پار کرنے کے بعد ایک مقام تک محدود کر دیا۔ اپنے ساتھ لائے ہجوم کو غچہ دے کر علی امین گنڈا پور مگر اسلام آباد پہنچ گئے۔ وہاں کے خیبرپختونخوا ہاؤس میں دو سے کم گھنٹے گزارنے کے بعد ”غائب“ ہو گئے اور کئی گھنٹوں کی پراسرار گمشدگی کے بعد پشاور نمودار ہوئے تو اپنے لاپتہ ہونے کے بارے میں ایک ناقابل اعتبار داستان گھڑی۔ اسلام آباد پر ایک اور یلغار کے لئے انہیں مناسب وقفہ درکار تھا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ خان صاحب سیمابی طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے مسلسل حالت انقلاب میں رہتے ہیں۔ 24 نومبر کی ”فائنل کال“ دینے کے ساتھ ہی انہوں نے بشریٰ بی بی کو پشاور بھیج دیا۔ وہاں پہنچ کر ابھی تک ”گھریلو“ خاتون ”سیاسی“ ہو گئیں۔ ملک بھر میں پھیلے تحریک انصاف کے مقامی رہ نماؤں خاص طور پر اس جماعت کی حمایت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے لوگوں کو واضح الفاظ میں حکم دیا کہ وہ اپنے شہروں سے بڑے ہجوم کے ساتھ پشاور کے لئے روانہ ہوں اور اسلام آباد تک سفر کی لمحہ بہ لمحہ تیاری کی ویڈیوز ”قیادت“ کو پہنچائیں۔ سیدھے لفظوں میں تحریک انصاف کی مقامی قیادتوں کو بتادیا گیا کہ اگر وہ اپنے ہمراہ کارکنوں کی خاطر خواہ تعداد لانے میں کامیاب نہ ہوئے تو پارٹی انہیں ”ڈس اون“ کردے گی۔
اس پیغام کے بعد وفاقی حکومت کا یہ سوچنا بچگانہ حماقت تھی کہ اب کی بار اکتوبر کے برعکس اسلام آباد پر یلغار کے لئے نسبتاً بڑا اور نفسیاتی اعتبار سے جذباتی ہجوم جمع ہو جائے گا۔ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کی تاریخ سمجھاتی ہے کہ مقبول قیادتوں کو حکومتیں جب جیل میں ڈال دیں تو ان کی اہلیہ یا بیٹی ان قیادتوں کے پرستاروں کو اپنے گرد مزاحمت کی خاطر اکٹھا کرلیتی ہیں۔ 1964 ء میں کوئی سیاستدان ایوب خان کو صدارتی انتخاب میں للکارنے کے قابل نہیں تھا۔ ان کی اکثریت قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے در پر حاضر ہوئی اور انہیں بطور ”مادر ملت“ فوجی آمر کے مقابلے کے لئے اتارا گیا۔ پیپلز پارٹی کے 1967 ء میں قیام کے بعد ایوب حکومت کی مزاحمت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے تو بیگم نصرت بھٹو میدان میں اتریں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالولی خان کو گرفتار کیا تو ان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان نے مزاحمت کی مشعل روشن کر دی۔ جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر انہیں جیل میں ڈالا تو محترمہ کلثوم نواز میدان میں اتریں۔
بشریٰ بی بی کو عمران خان کی زندگی کےلیے خطرہ ہیں : فیصل واؤڈا
چنانچہ ماضی کی سیاسی قیادتوں کو برا بھلا کہنے کے باوجود عمران خان بھی بالآخر اپنے مشکل وقت میں بشریٰ بی بی کو سیاسی میدان میں اتارنے کو مجبور ہوئے۔
لیکن بقول نصرت جاوید بشریٰ بی بی کو سیاسی میدان میں اتارنے کے بعد انہیں اپنے کارکنوں کو سمجھنے کا مناسب وقت فراہم نہیں کیا۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر اندازہ نہیں لگاسکے کہ ان کے عاشقان تحریک انصاف کی اس قیادت سے نفرت کرتے ہیں جو فروری 2024 ء کے انتخاب کی بدولت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ”عمران خان کی وجہ سے“ معتبر ہوئے خواتین وحضرات دل سے اپنے قائد کی رہائی کے لئے ”ڈو اور ڈائی“ کو تیار نہیں۔ جذبات میں ”سولو“ ہوئے کارکنوں کو میدان میں اتارنے سے پہلے بشریٰ بی بی کے لئے انہیں جاننا اور ان پر کامل کنٹرول حاصل کرنا لازمی تھا۔ لیکن عمران خان نے بشریٰ بی بی کو اس ضمن میں مناسب وقت ہی نہیں دیا۔ ایسے میں فائنل کال دینے کے بعد ”میدان جنگ“ سے کھسک جانا ہی سب سے بہترین حکمت عملی تھی جس پر حسب توقع عمل کیا گیا۔