مذاکرات اور جلد الیکشن مسلم لیگ نون کے مفاد میں کیوں ہیں؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ پاکستان کو موجودہ مسائل سے نکالنے کا واحد حل آج بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات ہیں تاکہ نئے انتخابات کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ انکا کہنا یے کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کا یہ فائدہ ہو گا کہ انہیں دھرنوں کے مشکل کام کی بجائے مذاکرات کا آسان کام کرنا پڑ جائے گا۔ ہو سکتا ہے وہ جلوسوں کے ذریعے پانچ سال میں حکومت نہ گرا سکے اور پارٹی بھی مشکلات کا شکار رہے۔ چنانچہ اس سے بہتر ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کر کے حکومت کی مدت کچھ کم کرائے اور جلد الیکشن کروا کر مشکلات سے چھٹکارا بھی پا لے۔
اپنے تازہ تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ اب تو دونوں پارٹیاں ایک جیسی ہو گئیں۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جعلی مینڈیٹ دلوایا تھا۔ تب مسلم لیگ (ن) کو اس کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا تاکہ نواز شریف کو اقتدار سے باہر رکھا جا سکے۔ پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن 2024 میں مسلم لیگ (ن) کو جعلی مینڈیٹ دلوایا گیا اور پی ٹی آئی کو اُس کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ پہلے نون لیگ کی قیادت نے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں اور اب پی ٹی آئی کی قیادت جیل میں بند ہے۔ یوں دونوں برابر ہو گئی ہیں اس لئے محاذ آرائی کی بجائے دونوں کو اب بات چیت کی طرف آنا چاہئے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ پی آٹی آئی کو اب معلوم ہو جانا چاہئے کہ احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ یہ 2014 نہیں بلکہ 2024 ہے اور اسٹیبلشمنٹ اُس کی بجائے حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی بھی یہ خوش فہمی ہوگی کہ وہ آرام سے پانچ سال اقتدار مکمل کر لے گی کیونکہ ابھی تو صرف پی ٹی آئی نے احتجاج کیا ہے۔ سب سے زیادہ سٹریٹ پاور کے حامل مولانا فضل الرحمان تو ابھی میدان میں نہیں آئے۔ کل وہ بھی دھرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ اس لئے دونوں جماعتوں کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ ایسے مذاکرات جن نکات پر ہوں ان میں ایک نکتہ یہ بھی ہو کہ نئے انتخابات کب کرائے جائیں کیونکہ پی ٹی آئی یہ کہتی ہے کہ نون لیگ نے اس کا مینڈیٹ چرایا ہے۔ دوسری بات پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر اور 9 مئی 2023 کے گرفتار شدگان کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی مذاکرات کا موضوع ہونا چاہئے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ مذاکرات صرف ان دو جماعتوں کے نہیں بلکہ تمام قابل ذکر جماعتوں کے نمائندوں کے ہونے چاہئیں۔ مثلا ًان میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے سوا باقی سب جماعتوں کو بھی یہ شکایت ہے کہ انکے خلاف دھاندلی کی گئی۔ ان مذاکرات میں پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ موجودہ حکومت کب تک برقرار رہے؟ ایک تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ یہ بھی اتنی مدت گزارے جتنی پی ٹی آئی نے گزاری تھی۔ دوسرا کام انتخابی اصلاحات کا ہو اور ایسی قانون سازی کی جائے کہ دھاندلی کا تدارک ہو سکے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کی جو باتیں میں نے لکھی ہیں یہ بظاہر ناممکن ہیں اور ہر فریق کیلئے قبول کرنا مشکل ہے لیکن سیاست ممکنات کا نام ہے۔ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) قبل از وقت حکومت کیوں چھوڑے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب ہر ہفتے دھرنے اور احتجاج ہوں، تو وہ کیسے اچھی حکمرانی کر سکے گی۔ مذاکرات کی صورت میں انہیں روز روز کی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بغیر مذاکرات کے وہ اقتدار چلانے کی کوشش کریں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھیں گی۔ ابھی تو جے یو آئی میدان میں نہیں۔
جھانسی کی رانی بننے کی خواہش مند بشری بی بی فرار کیوں ہوئیں؟
سلیم صافی کہتے ہیں کہ اسی طرح سب سے بڑا چیلنج بلوچستان ہے اور وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی انتخابی نتائج کو نہیں مانتیں۔ چنانچہ مسلم لیگ ن پانچ سال اپوزیشن کے حملوں کے ساتھ بے یقینی کی کیفیت میں حکومت کرنے کی بجائے ساڑھے تین سال کم و بیش آرام سے حکومت حاصل کر لے گی۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات کا یہ فائدہ ہوگا کہ انہیں دھرنوں کے مشکل کام کی بجائے مذاکرات کا آسان کام کرنا پڑ جائے گا۔ ہوسکتا ہے وہ جلسے جلوسوں کے ذریعے پانچ سال میں حکومت نہ گرا سکے اور پارٹی بھی مشکلات کی شکار رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ مذاکرات کر کے حکومت کی مدت کچھ کم کرائے اور مشکلات سے چھٹکارا بھی پائے۔ اسی طرح جے یو آئی ور دیگر جماعتوں کو بھی یہ فائدہ ہو گا کہ وہ اگلے انتخابات کو دھاندلی سے پاک کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ کوئی منصوبہ بنا سکیں۔