پاکستانی اشرافیہ پرتگال کا گولڈن ویزا کیوں لے رہی ہے؟

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے اس دعوے نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں مہنگی جائدادیں خرید چکی ہے تاکہ وہاں کی شہریت حاصل کی جا سکے۔
خواجہ محمد آصف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر دعویٰ کیا کہ پرتگال کا "گولڈن ریزیڈنس پرمٹ” حاصل کرنے والے افراد میں نامی گرامی بیوروکریٹس بھی شامل ہیں جو کہ اہم ترین فیصلہ سازی کا حصہ ہوتے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان میں بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے بارے میں بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کی بات سامنے آئی ہو۔ اس وقت دبئی کی 23 ہزار رہائشی پراپرٹیز کی ملکیت 17 ہزار پاکستانیوں کے پاس ہے۔ ان میں سابقہ فوجی افسران، بینکار، سیاست دان اور سینئیر بیوروکریٹس شامل ہیں۔ جنوری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا تھا کہ 22 ہزار سے زیادہ پاکستانی بیورو کریٹس دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے حال ہی میں سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کر دی تھی، جس کے بعد اب گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اور گھر والوں کے ملک اور بیرونِ ملک اثاثوں کی تفصیلات اور اپنے مالی سٹیٹس کے بارے میں ایف بی آر کو بتائیں گے۔ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ایک نیا سیکشن 15 اے شامل کیا گیا، جسکے مطابق سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعے پبلک کی جائے گی۔
لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ پرتگال میں سرمایہ کاری پاکستانیوں کے لیے پرکشش کیوں بن رہی ہے۔ یاد رہے کہ پرتگال کا گولڈن ویزا پروگرام ’گولڈن ریزیڈنس پرمٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت غیر یورپی ممالک کے شہری ایک مخصوص رقم کی سرمایہ کاری کے عوض پرتگال میں مستقل ریزیڈنسی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سکیم کے تحت نوکریاں پیدا کرنے، تحقیقاتی سرگرمیوں، کمرشل کمپنی کے قیام، ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے فروغ، وینچر کیپیٹل اور دیگر سکیموں میں سرمایہ کاری کے لیے فنڈز پرتگال منتقل کیے جا سکتے ہیں۔
اس سے قبل ریئل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی پرتگال کی مستقل ریزیڈنسی حاصل کی جا سکتی تھی تاہم 2023 میں اس آپشن کو ختم کر دیا گیا۔ پرتگال کے گولڈن ویزا پروگرام کے تحت وہاں کی ریزیڈنسی حاصل کرنے والے افراد اپنے پارٹنر، بچوں، والدین اور پارٹنر کے والدین کو بھی پرتگال بلانے کے اہل ہوں گے۔
اس کے علاوہ، پانچ سال کے بعد اس پروگرام کے تحت سرمایہ کاری کرنے والے پرتگالی شہریت کے لیے اپلائی کرنے کے لیے اہل ہوں گے۔
افغانستان سے بات چیت کے بغیر خیبرپختونخوا میں امن ممکن نہیں: بیرسٹر سیف
بین الاقوامی خبر رساں ادارے بلومبرگ کے مطابق 2024 میں پرتگال نے تقریباً پانچ ہزار گولڈن ویزے جاری کیے۔ یہ تعداد 2023 میں جاری کیے جانے والے 2901 گولڈن ویزوں کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد زیادہ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سپین کی جانب سے رواں سال اپریل میں گولڈن ویزا سکیم ختم کیے جانے کے بعد پرتگال میں سرمایہ کاروں کی جانب سے دلچسپی میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستانی اشرافیہ بیرونِ ملک سرمایہ کاری اس لیے کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کی غیر یقینی معاشی صورت حال سے پریشان ہے اور اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ کوئی سرکاری ملازم ہے یا نہیں، لوگوں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی ایک بڑی وجہ سفری سہولت بھی ہے کیونکہ اب پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا لینا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے لوگ خاص طور پر بیوروکریٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کسی ایسے ملک کی امیگریشن حاصل کر لیں جس کا پاسپورٹ انہیں دنیا بھر میں پھرنے کی سہولت فراہم کر سکے۔ لہذا یہ لوگ پہلے انویسٹر کیٹیگری میں عارضی ریزیڈنسی حاصل کرتے ہیں اور پھر مستقل ریزیڈنسی مل جانے کے بعد پاسپورٹ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں آٹھ سے دس سال لگ جاتے ہیں لیکن اس کا آغاز سرمایہ کاری سے ہی ہوتا ہے۔
