شام میں صدر بشار کی حکومت کے خاتمے پر PTI والے خوش کیوں ہیں  ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بعث پارٹی اور علوی خاندان کے 50 سالہ اقتدار کا سورج بھی آخر کار غروب ہو گیا۔ لیکن شام میں باغیوں کی کامیابی پر پاکستان میں تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب یوں خوشیاں منائی جارہی ہیں جیسے پاکستان میں انقلاب کی کوشش کامیاب ہو گئی ہو۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک عرصہ سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ 2010ء میں عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر اُٹھی جسے ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا گیا۔ الجزائر اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم کنارے خوبصورت ملک تیونس میں آگ لگی اور تباہی پھیلی تو ہمارے ہاں طفلان انقلاب نے زندہ بادکے نعرے لگائے۔ تیونس کے صدر زین العابدین کا 30 سالہ دور ختم ہوا تو وہاں سے زیادہ یہاں جشن طرب برپا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مصر، شام، لیبیا، یمن اور بحرین اس سونامی کی زد میں آ گئے۔ حسنی مبارک، معمر القذافی اور علی عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ لیکن بعد میں یہ تلخ حقیقت واضح ہوئی کہ جسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا تھا وا ایک سراب تھا کیونکہ یہ ممالک بعد ازاں خانہ جنگی کا شکار ہو گے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ کابل میں طالبان کے داخل ہونے پر اور پھر حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں ایسی ہی وارفتگی کا عالم دیکھنے کو ملا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ طالبان جنہیں ہم اپنے بھائی سمجھتے تھے اب ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار پر بھی پاکستان میں ایک مخصوص جماعت کے حامیوں کی جانب سے شادیانے بجائے گئے اور اب بشار الاسد کے دمشق سے بھاگ جانے پر نصرمن اللّٰہ و فتح قریب کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ آمریت اور ریاستی جبر کا خاتمہ یقیناً خوش آئند ہے مگر آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جانے پر ایسی دیوانگی سمجھ سے باہر یے۔

بلال غوری سوال کرتے ہیں کہ کیا یوتھیوں میں سے کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ آمریت تو دیگر کئی ممالک میں بھی ظلم و استبداد کے ساتھ موجود ہے تو پھر شام کے شہریوں کو ہی بارود کے ڈھیر میں لپٹی جمہوریت کا تحفہ عنایت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ باغیوں کے ساتھ لڑائی کا آغاز تو 2011ء میں ہوا مگر جو کام گزشتہ 13برس میں نہ ہو سکا، وہ 13دن میں کیسے ہو گیا؟ شام عالمی شطرنج کی بساط کا مرکز کیسے بنا؟

وہ بتاتے ہیں کہ دراصل یہ گریٹ گیم شروع 2009 سے شروع ہوتی ہے۔ قطر قدرتی وسائل سے مالامال ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہاں قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔ حال ہی میں یہاں نارتھ فیلڈ میں 240کیوبک فٹ گیس کا ایک نیا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جس کے بعد قطر میں قدرتی گیس کے ذخائر کا تخمینہ 1760 ٹریلین کیوبک فٹ سے بڑھ کر 2000 کیوبک فٹ ہو گیا ہے۔ یہاں العدید ایئر بیس کے نام سے امریکہ کا سب سے بڑا ایئر بیس ہے جس کی مدت ختم ہونے پر حال ہی میں مزید دس سال کی توسیع کی گئی ہے۔ یہاں امریکی مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔قدرتی گیس برآمد کرنے والے ممالک میں روس سرفہرست ہے جبکہ پانچ بڑے ممالک میں آسٹریلیا، امریکہ کے بعد قطر بھی شامل ہو گیا ہے۔

یورپی یونین میں شامل ممالک طویل عرصہ تک ایندھن کی ضروریات کیلئے روس پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ روس کی اجارہ داری ختم کی جائے۔ اس لئے قطر سے گیس خریدنے کی تجویز سامنے لائی گئی۔ قطر ایل این جی تو برآمد کر رہا تھا مگر اس پر اخراجات زیادہ آ رہے تھے چنانچہ گیس پائپ لائن کے ذریعے یورپی ممالک کو ایندھن فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 10 بلین ڈالر کی لاگت سے 1500 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ یہ گیس پائپ لائن سعودی عرب، اردن اور شام سے ہوتی ہوئی ترکی میں داخل ہوتی اور چونکہ ترکی یورپ کا گیٹ وے ہے تو وہاں سے مغربی ممالک کو گیس فراہم کی جاتی۔ اس گیس پائپ لائن سے روس کو نہ صرف معاشی طور پر نقصان ہوتا بلکہ خطے میں روس کا اثر و رسوخ بھی کم ہو جاتا۔

بلال غوری بتاتے ہیں کہ شام کے حکمران بشار الاسد کا شمار روس کے اتحادیوں میں ہوتا تھا چنانچہ بشار الاسد نے 2009ء میں اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس گیس پائپ لائن کو کسی صورت شام سے نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ چنانچہ امریکی انتظامیہ نے عراق میں تیار کیے گئے جہادی گروہوں کو شام بھیج دیا۔ یہاں حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو دنیا بھر سے جہادی گروہ شام کا رُخ کرنے لگے۔ ابتدائی طور پر ان باغیوں کو کامیابی ملی اور انہوں نے ادلب سمیت کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ مگر بعد ازاں جب روس ،ایران اور حزب اللہ سے مدد ملی تو حکومتی افواج نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔ شام میں جاری لڑائی سے کئی ممالک کے مفادات وابستہ تھے، جن میں ترکی اور اسرائیک بھی شامل تھے۔

جنرل فیض کے انتقامی جذبے نے انہیں کورٹ مارشل تک کیسے پہنچایا؟

چنانچہ ان ممالک کے مفادات کے سبب شام میں بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ چونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اسرائیل نے حزب اللّٰہ کی کمر توڑ دی ہے، اس لیے حماس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، یوں ایران کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، روس کو یوکرین کی جنگ نے تھکا دیا ہے اسلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اُٹھانے سے پہلے یہ اُدھورا کام نمٹانے کا فیصلہ ہوا۔ شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی جنگجو تنظیم ہیت تحریر الشام کی قیادت ابو محمد الجولانی نامی پراسرار کردار کر رہا ہے جو منظر عام پر آتے ہی چھا چکا ہے۔ اس کے جنگجو دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن بلال غوری کے مطابق شام میں تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے جو گولان کی سب سے بڑی اور سٹریٹیجک اہمیت کی حامل چوٹی پر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔ اس پہاڑی سے صرف 40 کلومیٹر دور موجود شام کے دارالحکومت دمشق کو نہ صرف توپ خانے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ پورے علاقے پر نظر بھی رکھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا یہ انقلاب نہیں بلکہ سراب ہے اور آئندہ چند برس کے دوران یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔

Back to top button